نبی اور رسول کا جزو لاینفک اورحیثیت کا بدیہی ثبوت"ٱلْـكِـتَٟبُ"منفرد کتاب اللہ ہے۔

اس لئےایسا دعویٰ کرنے والےمرزا غلام احمد قادیانی اور راشدخلیفہ  محض غیر مسلم نہیں بلکہ  کاذب، فاسق ،منافقین ہیں،

مؤلف مظہر انوار نورانی

2024


فہرست

ا نسان کی جنت سے زمین پرصاحب حریت اور خود مختار(خلیفہ)حیثیت میں آمد

اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پربھیجتے وقت رابطے اور ہدایت کو جاری رکھنے کے متعلق مطلع کر دیا تھا  کہ سب کے لئے یکساں  بذریعہ کتاب ہو گا۔

اللہ تعالیٰ نے   ہدایت بھیجنے  کے لئے نبیوں کا انتخاب فرمایا جنہیں تمام تخلیقات پر اشرف اور افضل قرار دیا۔

بعثت نبی اور انزال ِکتاب لازم و ملزوم ہیں اوربعثت رسول پر  انہیں   پیغام اورکتاب  تھمانا لازم ہے۔

آقائے نامدار، رسول کریم  محمَد ﷺاورعظیم قرءان کا منفرد اعزاز ان کی عالمی و دائمی حیثیت ہے  جو نوع انسان کو ایک لوپ/بندھن میں کرتا ہے۔


ا نسان کی جنت سے زمین پرصاحب حریت اور خود مختار(خلیفہ)حیثیت میں آمد

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں مہمان ٹھہراتے ہوئے  اس خدشے کا بتا دیا تھا کہ ابلیس جنت سے خارج کروانے کے درپے ہوگا۔وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو گیا تھا۔

فَأَزَلَّـهُـمَا ٱلشَّيْطَٟنُ عَنْـهَا فَأَخْرَجَهُـمَا مِمَّا كَانَا فِيهِۖ
وَقُلْنَا ٱهْبِطُوا۟
بَعْضُكُـمْ لِبَعْضٛ عَدُوّٚۖ
وَلَـكُـمْ فِـى ٱلۡأَرْضِ مُسْتَقَرّٚ وَمَتَٟعٌ إِلَـىٰ حِيـنٛ٣٦

تب    درخت کے متعلق  اختراع کردہ دلفریب باتیں قسمیہ بتا کرشیطان نے  انہیں اس ممانعت کی جانب سے  گم کردہ خیال کی حالت میں کر دیا۔جس کے نتیجے میں وہ(ابلیس /شیطان)انہیں راحت و شادمانی کی اس حالت سے نکلوانے کا موجب بن گیا جس میں وہ دونوں رہ رہے تھے۔
کیونکہ ہم جناب نے اُن سے کہاتھا’’تم لوگ نیچے (زمین پر)جاؤ۔وہاں پر بھی تم لوگوں میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے۔
اور آرام دہ جائے رہائش اور سامان زیست کا تم لوگوں کے لئے زمین میں ایک مقررہ مدت کیلئے انتظام کر دیا گیاہے‘‘۔
(البقرۃ۔۳۶)

جنت میں سے نکل کر زمین پر اترنے کا یہ فرمان نہ تو لغزش کے فوراً بعد دیا گیا تھا اور نہ یہ اس لغزش کی سزا تھی۔اللہ تعالیٰ نے ان کی لغزش کو گناہ اور  قابل سزا جرم قرار ہی نہیں دیا ۔مگر چونکہ انہیں مہمان کے طور (ٱسْكُنْ)جنت میں رہائش رکھنے کا کہا گیا تھا اور بتا دیا گیا تھا کہ اس درخت کا پھل  کھانے کی صورت میں مہمان نوازی کا دور ختم ہو  جائے گا اور انہیں وہاں سے چلے جانا ہوگا،ایسا ہونا عہد نامے کا جزو تھا۔مگر  اس وقت انہیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ وہاں سے خارج ہو کر انہیں جانا کہاں ہو گا۔آدم علیہ السلام نے مہمان بننے کی دعوت کو مان کر فقط ایک مخصوص  درخت سے کھانے کی ممانعت کی وجہ اور حکمت اور وہاں سے نکل کر جانے کے متعلق سوال اٹھائے بغیر اور معلومات کی خواہش کی بجائے  زوجہ مبارکہ کا  ہاتھ تھام کر  عجلت سے جنت میں داخل ہو گئے۔اس لئے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ عجلت نقصان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

قَالَ ٱهْبِطُوا۟بَعْضُكُـمْ لِبَعْضٛ عَدُوّٚۖ
وَلَـكُـمْ فِـى ٱلۡأَرْضِ مُسْتَقَرّٚ وَمَتَـٟـعٌ إِلَـىٰ حِيـنٛ 
٢٤
قَالَ فِيـهَا تَحْيَوْنَ وَفِيـهَا تَمُوتُونَ
وَمِنْـهَا تُخْرَجُونَ ٢٥

ان  جناب نے حکم دیا:"تم لوگ نیچے (زمین پر)جاؤ۔وہاں پر بھی تم لوگوں میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے۔
اور آرام دہ جائے رہائش اور سامان زیست کا تم لوگوں کے لئے زمین میں ایک مقررہ مدت کیلئے انتظام کر دیا گیاہے
"
۔(الاعراف۔٢٤)
ان  جناب نے کہا:"تم لوگ اس (زمین)میں زندگی بسر کرو گے،اور تم لوگ اس میں موت سے ہمکنار ہو گے۔
اور اس میں ہی سے تم لوگوں کو خارج کیا جائے گا(یوم قیامت حیات نو دے کر)"۔(الاعراف۔
٢٥)

جنت سے جب خارج ہونے کی بات ہوئی تھی اس وقت ملائکہ کو بھی معلوم نہ تھا کہ پھل کھا لینے کے بعد کیا ہو گا اور انسان کہاں بھیجا جائے گا۔ میرا یہ کہنا کہ لغزش کے عرصہ بعد بھی دونوں جنت کے مکین رہے تھے  وہ میرا نہیں قرءان مجید میں درج بیان ہے:

ثُـمَّ ٱجْتَبَٟهُ رَبُّهُۥ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ ١٢٢
قَالَ ٱهْبِطَا مِنْـهَا جَـمِيعَاۢۖ

مزید کچھ عرصہ گزر جانے پر بعد ازاں اس واقعہ کےان کے رب نے انہیں  مخلِص  بندہ منتخب  فرما کر سرفراز کیا۔اوراظہار ندامت  اور طلب گار معافی ہونے پران جناب نے معذرت کو قبول کر لیا۔اور انہیں ہدایت فرما دی(کہ حیات خلد اورلازوال حکمرانی پانے کا راست طریقہ کیا ہوگا)۔(سورۃ طہ۔١٢٢)
ان جناب نے کہا:’’تم دونوں (خاوند بیوی)اس میں سے نیچے (زمین پر)اتر جاؤ، اکٹھے۔(حوالہ سورۃ طہ۔123) 

حرف ثُـمَّ  واقعات اور بات کی کڑیوں کو اس وقت جوڑتا ہے جب بعد والے واقعہ کی نوعیت اور کیفیت قبل والے واقعہ سے مختلف ہو۔یہ حرف واقعات کے لمحہ بہ لمحہ تسلسل کا اظہار نہیں کرتا بلکہ دو واقعات  کے مابین وقت کے فاصلے،مدت کی نشاندہی کرتا ہے ۔اس کے معانی اور مفہوم حرف ”ف“اورحرف ”و“سے مختلف اورمنفردہیں۔ قرءانِ مجید میں یہ حرف تین سو اڑتیس مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ سوائے ان مقامات کے جہاں کسی بات کی دو مرتبہ تکرار کے درمیان استعمال ہوا (سورۃ الانفطار،18،ٱلتَّكَّاثُر۔۳،۴)دوسرے مقامات پر جہاں واقعات کے درمیان استعمال کیا گیا وہاں پہلے اور بعد میں بیان ہونے والے واقعہ کی نوعیت اورکیفیت جدا جدا ہے اور ان کے مابین وقت کا فاصلہ ہے،مختصر(قریب)یا طویل۔اس حرف کی انفرادیت کو مدنظر نہ رکھا جائے تو کئی مقامات پر بیان کئے گئے واقعات کے پس منظر کو سمجھنے میں دِقت اور غلطی ہوتی ہے۔


اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پربھیجتے وقت رابطے اور ہدایت کو جاری رکھنے کے متعلق مطلع کر دیا تھا  کہ سب کے لئے یکساں  بذریعہ کتاب ہو گا۔

اللہ تعالیٰ نے ا نسان کو اعزازاورتکریم کے ساتھ ارادے اور فیصلے کرنے میں خود مختار حیثیت میں  ایک معینہ مدت کیلئے  روانہ کرتے وقت  زمین پر خوشگوار قیام اور جنت الفردوس میں واپس آنے کا نسخہ اور راستہ ان الفاظ میں بتا دیا تھا:
               قُلْنَا ٱهْبِطُوا۟ مِنْـهَا جَـمِيعًاۖ
                 فَإِمَّا يَأْتِـيَنَّكُـم مِّنِّى هُدٙى فَمَن تَبِــعَ هُدَاىَ
                   فَلَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا هُـمْ يَحْـزَنُونَ٣٨

ہم جناب نے اُن سے کہا’’تم سب اس میں سے نیچے (زمین پر)اتر جاؤ، اکٹھے۔
اس طرح زمین میں آباد ہونے پرجب تم معاشرہ بن چکے ہوگے  تو   جب جب   ہدایت نامہ تم لوگوں تک پہنچ جائے جس کا آغاز اور اجرا ءمیری جانب سے ہو گا:تواُس وقت جنہوں نے میرےہدایت نامہ (کتاب  )کی اس انداز میں پیروی کی کہ  اس کےاور اپنی عقل کے مابین کسی اور بات کو حائل نہیں ہونے دیا۔
تو نتیجے میں (یوم قیامت)خوف ایسے لوگوں پر نہیں چھائے گا۔اور نہ یہ لوگ غم و ملال سے دوچار ہوں گے۔(البقرۃ۔٣٨)

اس ذیلی جملے میں فعل کا فاعل"هُدٙى"مطلق نکرہ ہے۔اس کو واضح اور متبین کرنے کے لئےجار و مجرور"مِّنِّى"فعل اور فاعل سے متعلق ہیں جس میں حرف جر إبتداء الغاية کے لئے ہے۔یہ زمان و مکان میں ایسے فعل کی ابتدا ظاہر کرتا ہے جس  میں ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب متحرک ہونا پایا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ منبع ہدایت وہ جناب ہیں اور اس کو بھیجنے  کی ابتداء اور اس کا اجرا ءان کی جانب سے ہو گا۔اور یہ بھی واضح فرما دیا کہ اس ہدایت کا اطلاق تمام پر ہو گا،اس کا تعلق خفیہ اور محض  انفرادی نہیں  بلکہ طشت از بام ہو گا۔

قَالَ ٱهْبِطَا مِنْـهَا جَـمِيعَاۢۖ  بَعْضُكُـمْ لِبَعْضٛ عَدُوّٚۖ
فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُـم مِّنِّى هُدٙى
فَمَنِ ٱتَّبَعَ هُدَاىَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ١٢٣

ان جناب نے کہا’’تم دونوں (خاوند بیوی)اس میں سے نیچے (زمین پر)اتر جاؤ، اکٹھے۔وہاں پر تم لوگوں میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے۔
اس طرح زمین میں آباد ہونے پرجب تم معاشرہ بن چکے ہوگے  تو   جب جب   ہدایت نامہ تم لوگوں تک پہنچ جائے جس کا آغاز اور اجرا ءمیری جانب سے ہو گا:تواُس وقت جنہوں نے میرےہدایت نامہ (کتاب  )کی اس انداز میں پیروی کی کہ ان کے مندرجات اور اپنی عقل کے مابین کسی اور بات کو حائل نہیں ہونے دیا۔اس انداز میں پیروی سے وہ نہ تو ادھراٗدھر بھٹکے گا اور نہ کسی مشقت کا سامنا کرے گا۔(صورۃ طہ۔١٢٣)

اللہ تعالیٰ کی جانب سے  ہدایت بھیجے جانے اور موصول کنندہ انسان کے مابین ذریعہ اور رابطہ بیان نہیں فرمایا۔مگر  انکار اور تکذیب کرنے والوں کا انجام بتاتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ ہدایت نامہ "آیات"کی صورت میں ہو گا۔کسی بھی زبان کی تحریر میں مضمر موادکا مصنف کے نکتہ نظر کے قریب قریب ادراک تبھی ممکن ہے اگر ہم ان کے الفاظ کے چناؤ کی توجیح اور ان میں موجود لازمی عناصر کی تحلیل کے ساتھ ان کی نحوی ترتیب کا تجزیہ کریں۔اور اہم بات یہ ہے کہ ہم تحریر میں بلاغت کے انداز اور طرز کا تعین بھی کریں کیونکہ ان کے ذریعے مصنف منفرد الفاظ اور نحوی ترتیب کے معنی و مفہوم سے کہیں زیادہ اسے ابلاغ کا حامل بناتے ہیں۔خطیبانہ انداز میں ایک قسم ایک بات کےدو متضاد پہلوؤں کو ساتھ ساتھ بیان (Juxtaposition)کرکے قدر مشترک کے باوجود اثرات اور نتیجے کے فرق کو عیاں کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے"میری ہدایت"کی اتباع کرنے والوں کاخوشگوار انجام بتانے کے بعدمتضاد طرز عمل اختیار کرنے والوں کااندوہناک انجام بتاتے ہوئے "میری ہدایت"کے معنی و مفہوم کو نہ صرف واضح کر دیا بلکہ لفظ "ہدایت"کے مفاہیم کومحدود کر دیا:

وَٱلَّذِينَ كَفَـروا۟ وَكَذَّبُوا۟ بِـٔ​َايَٟتِنَآ
أُو۟لَـٟٓئِكَ أَصْحَـٟـبُ ٱلنَّارِۖ
هُـمْ فِيـهَا خَٟلِدُونَ٣٩

ذہن نشین کر لو کہ وہ لوگ جنہوں نے ہمارے رسول کا انکارکر دیا اور ہماری پہنچائی گئی آیتوں (کتاب کے مندرجات /مافوق الفطرت  شئے کا مشاہدہ کرانا)کو لوگوں کے سامنے برملا جھٹلادیا:
تو یہی ہیں وہ لوگ جو زندان جہنم میں رہنے والے ہوں گے۔یہ لوگ ہمیشہ اس (تپتی جہنم)کے اندر رہیں گے۔(البقرۃ۔۳۹)

وَمَنْ أَعْـرَضَ عَن ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةٙ ضَنكٙا
وَنَحْشُـرُهُۥ يَوْمَ ٱلْقِيٟمَةِ أَعْمَىٰ ١٢٤

اور جس کسی نے میری جانب سے بھیجے گئے "ذکر"/نصیحت /دستور عمل سے دانستہ اِعراض برتا:تو اس کی پاداش میں ناگفتہ بہ معاشیات اس کے لئے جہنم میں میسر ہو گی۔
اور ہم جناب اسے یوم قیامت میں اس حال میں اکٹھا کریں گے کہ وہ اپنے آپ کو اندھا محسوس کر رہا ہو گا۔(سورۃ طہ۔۱۲۴)

اس طرح اللہ تعالیٰ نے غیر مبہم الفاظ میں انسان کو زمین پر بھجتے وقت واضح کر دیا تھا کہ انجام کے نکتہ نظر سےہدایت صرف اور صرف اس کو سمجھا اور مانا جائے گا جو زمان و مکان میں وقتاً فوقتاً ان کوآیات میں بیان کردہ الفاظ کے ذریعے پہنچایا جائے گا۔ان کا اطلاق معشر الجن و الانس پر یکساں ہے۔عربی کا لفظ"هُدٙى"مذکراور "ءَايَٟتٚ"واحد"ءَايَةٚ"مؤنث ہیں۔یہ   ہدایت کی اکائیاں ہیں جن میں ہدایت  کی جزیات  کو سمویا گیا ہے۔مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ  انسان کو  ہدایت  نامہ بصورت آیات کس ذریعے سے پہنچے گا۔مگر اس جملے میں اظہار موجود تھا کہ درمیان  میں ایک رابطہ کار ہو گا۔


اللہ تعالیٰ نے   ہدایت بھیجنے  کے لئے نبیوں کا انتخاب فرمایا جنہیں تمام تخلیقات پر اشرف اور افضل قرار دیا۔

اللہ تعالیٰ نے   ہدایت بھیجنے کا اپنا وعدہ نباہنے کے لئے وسیلہ،توسط کن کو بنایا؟ارشاد فرمایا:

كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةٙ وَٟحِدَةٙ فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّــۧنَ مُبَشِّـرِينَ وَمُنذِرِينَ

زمان میں ایک وقت ایسا بھی رہا ہے جب انسان ایک ہم خیال وحدت تھے۔بسبب انسانوں کے مابین نظریاتی اختلاف پیدا ہو جانے پر اللہ تعالیٰ نے  ازخود سے چنے اورتمام پر اشرف اور محترم قرار دئیے مخلص بندوں(نبیوں)کو حریت پرلگائی گئی قیود سے آزاد کرنے کے لئے مقرر فرمایا۔ان کے ذمہ مبنی بر حقیقت طرز عمل اپنانے والوں  کو خوش کن نتائج کی بشارت/ضمانت  دینا اور باطل طرز عمل پر گامزن لوگوں کو لازمی تکلیف دہ عواقب سے متنبہ  کرنا تھا۔(حوالہ البقرۃ۔۲۱۳)

اللہ تعالیٰ  نےہدایت کو بھیجنے کا وسیلہ اور توسط جن کو بنایا  انہیں منفرد نام سے بیان فرمایا"ٱلنَّبِيِّــۧنَ"مرفوع "ٱلنَّبِيُّونَ"؛ واحد "ٱلنَّبِىُّ"؛ جمع مکسر قلیل "ٱلۡأَنۢبِيَآءَ"ہے  ۔   اس کے ماخذ "ن۔ب۔و"میں سموئے تصور کے متعلق  جناب ابن فارس نے  بتایا:"يدلُّ على ارتفاعٍ في الشيء عن غَيره أو تَنحٍّ عنه"یہ ہمیں کسی  شئے کے ارتفاع سے آگاہ کرتا ہے   ان کی نسبت جو اس کے  بجز ہیں  یا اس سے الگ ہیں"۔ شئے کے اونچا، بلند، مرتفع کا تصور جب ذی ہست کے لئے ہو گا تو  معنی دوسرے تمام سے  منفرد، عالی مرتبت، اشرف،محترم، صاحب فضیلت  ہو گا۔قرءان مجید میں یہ جذر اسی(80)مرتبہ  بطور اسم استعمال ہوا ہے۔اسی کا ہندسہ  تسلط،کنٹرول اور کامیابی کے اصول کی علامت ہے۔یہ قیادت  اور قدرتی رہنما کا نمبر ہے۔

"ٱلنَّبِيُّونَ"؛ واحد "ٱلنَّبِىُّ"صفت  مشبہ  میں "ی"نسبت  سے اظہر من الشمس ہے کہ نوع انسان میں یہ مردوں کا ایک منفرد گروہ/جماعت ہے ۔اسم صفت مشبہ فعل لازم سے بنتا ہے اور اس خاصیت کو ظاہر کرتا ہے جو اُس ہستی کا جز لاینفک اور دائمی ہے۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام کے فصل۔12 مشتمل آیات 84تا 90 میں اپنے مختص اور منتخب کردہ اٹھارہ  جلیل القدر نبیوں کے اسمائے گرامی بتاتے ہوئے ان کے متعلق  اپنا نکتہ نظر اور فیصلہ ان الفاظ میں بتایا:

وَكُلّٙا فَضَّلْنَا عَلَـى ٱلْعَٟلَمِيـنَ ٨٦

مطلع رہو؛ ہم جناب نے ان ہر ایک ایک کو  تمام جہانوں کے اوپر صاحبان فضیلت ٹھہرایا تھا۔(حوالہ الانعام۔٨٦)

عالمین پر اشرف ، ممتاز،بلند مقام قرار دینے کے علاوہ ان کے متعلق ارشاد فرمایا:

وَٱجْتَبَيْنَٟهُـمْ وَهَدَيْنَٟهُـمْ إِلَـىٰ صِـرَٟطٛ مُّسْتَقِيـمٛ ٨٧

مطلع رہو؛ ہم جناب نے انہیں (متذکرہ شخصیات)تمام پر فوقیت دیتے ہوئے ذاتی طور پر ایک جماعت کے طور منتخب فرمایا تھا اور ہم نے انہیں ہدایت دی تھی کہ لوگوں کو صراط مستقیم کی جانب بلائیں۔(حوالہ الانعام۔٨٧)

ٱجْتَبَيْنَٟهُـمْ۔اس جملہ فعلیہ میں فعل باب افتعال سے ہے جن میں کسی فعل کو متعین مقصد کے تحت خوش اسلوبی اور احتیاط سے کرنا اس کے معنی اور مفہوم میں ازخود سے شامل ہیں۔ ماخذ"ج۔ب۔و"میں سموئے بنیادی تصور کو جناب ابن فارس نے  بیان کیا"يدل على جَمْع الشيء والتجمُّع یہ ہمیں شئے کوجمع کرنے اور مجتمع اکائی  بن جانے کی نشاندہی کرتا ہے"۔اِس کی مثال کہکشاں ہے جو ستاروں کا جھرمٹ، مجموع ہے،اس طرح منفرد ستارے اور انفرادی رکن کی نسبت اس مجتمع اکائی سے بن جاتی ہے ویسے ہی جیسے  کہ "ی"نسبتی سے اظہار ہوتا ہے۔ اس کے معنی میں دوسروں سے فوقیت دیتے ہوئے کسی کا انتخاب کرنا بھی ہیں۔اس طرح واضح ہے کہ "ٱلنَّبِيُّونَ"ایک ایسا  مجموع،کہکشاں ہے جس میں جلیل القدر،خاص مقصد اور انتہائی احتیاط سے منتخب اور نامزد کردہ نوع انسان کے مردوں کی متعین تعداد نے ایک قطار میں دنیا میں جلوہ افروز ہونا تھا۔قرءان مجید اور رسول کریم محمّد ﷺکے  کائنات میں جلوہ افروز ہو جانے کے بعد اگر کوئی متمنی یا دعویدار نبوت  و رسالت ہے تو اس کا نفسیاتی مریض    اور  کاذب ہونا اتنا  بدیہی ہے جتنا سورج ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے  منتخب کردہ اس مجموع کے بارے میں جن الفاظ میں بتایا ہے  وہ انہیں ہر حوالے سے کاملیت کا مظہر قرار دیتے ہیں۔ارشاد فرمایا:

إِنَّـآ أَخْلَصْنَٟهُـم بِخَالِصَةٛ ذِكْرَى ٱلدَّارِ ٤٦

یہ حقیقت ہے کہ ہم جناب نے انہیں اخلاص کے مجسم پیکر کے طور اپنے لئے مخصوص کر لیا تھا،ان کے مخلَص رہنے کا  جہاں میں  ذکروچرچا   ان کا  انعام ہے۔(سورۃ صۤ۔٤٦)

 اللہ تعالیٰ نے بالتاکید ان کے متعلق بتایا"أَخْلَصْنَٟهُـم"۔اس  جملہ فعلیہ کا فعل باب افعال اور مصدر"اِخْلاَصٌ"ہے۔ماخذ"خ ۔ل۔ص"کے تصور کو جناب ابن فارس نے  بیان کیا"وهو تنقيةُ الشَّيء وتهذيبُه"۔ "یہ کسی  شئے کو پاکیزہ، تطہیر، اور اس کو تہذیب ،شائستگی، نفاست، اعلیٰ اقدار کا حامل بنانا ہے"۔اس فعل کا مقصد کسی کو دوسروں سے الگ کر کے کسی کام کے لئے  خالص اور مختص کر لینا ہے۔اس طرح سے جنہیں  منتخب کر لیا جائے انہیں "ٱلْمُخْلَصِيـنَ"کہتے ہیں۔یہ اسم مفعول جمع مذکر ہے۔آپ نے بالکل صحیح یاد کیا کہ یہی ہیں  اللہ تعالیٰ کے وہ مخصوص  بندے جن کو ابلیس نے اپنے عزائم بتاتے ہوئے اپنے دائرہ کار سے ماوراء قرار دیا تھا:

إِلَّا عِبَادَكَ مِنْـهُـمُ ٱلْمُخْلَصِيـنَ ٤٠

سوائےان (انسانوں)میں سے آپ جناب کے ایسے بندوں کے   جنہیں اخلاص کے مجسم پیکر کی حیثیت   میں خصوصاً منتخب کیا گیا ہے(علیہم السلام)"(الحجر۔٤٠)

یہ  تمام اخلاص کے پیکر ہیں۔ایسے پیکر جن پر نور کی مانند کوئی دھبہ،باریک کالا نقطہ  نہ ہو اور نہ دکھائی دے۔ان کا اخلاص  ضرب المثل ہے۔اس کا جہاں میں ذکر و چرچا ان کا انعام ہے۔ان کے آخری رکن رسول کریم ﷺ کو الگ سے  بھی یہ بات  بتائی:

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ٤

کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم نے آپ کے ذکر اور شہرت کو آپ کی خاطر بام عروج پر پہنچا دیا ہے۔(الانشراح۔٤)

اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے ذاتی طور پر منتخب  کردہ  مجموع  کو،جس میں نہ کوئی اور شامل ہو سکتا ہے اور نہ منہا،  تمام تخلیق پر اشرف قرار دیا ہے:

           وَإِنَّـهُـمْ عِندَنَا لَمِنَ ٱلْمُصْطَفَيْـنَ ٱلۡأَخْيَارِ ٤٧

اور ان کے متعلق یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہماری بارگاہ میں اور نقطہ نظر سے ان (انبیاء علیہم السلام)میں  یقیناًہر ایک  ایک اس جماعت کا فرد ہے جو انتہائی احتیاط سےتمام سے معتبر ترین بندوں کی حیثیت سے پسند فرمائے گئے ہیں۔ان کا وصف یہ ہے کہ  ظاہری اور باطنی  دونوں لحاظ سےہمیشہ بہترین  اور اشرف انسان ہیں۔(سورۃ صۤ۔٤٧)

وَٱذْكُرْ إِسْـمَٟعِيلَ وَٱلْيَسَعَ وَذَا ٱلْـكِفْلِۖ

اور آپ(ﷺ)اسماعیل،اور الیسع اور ذا الکفل (علیہم السلام)کا ذکر فرمائیں۔ 

وَكُلّٚ مِّنَ ٱلۡأَخْيَارِ ٤٨

اور بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اور نقطہ نظر میں ان میں ہر ایک ایک اس جماعت کا فرد ہے جس کا وصف یہ ہے کہ  ظاہری اور باطنی  دونوں لحاظ سےہمیشہ بہترین  اور اشرف انسان ہیں۔(سورۃ صۤ۔٤٨)

اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے مجموع کو مرکب توصیفی"ٱلْمُصْطَفَيْـنَ ٱلۡأَخْيَارِ"سے بیان فرمایا۔موصوف"ٱلْمُصْطَفَيْـنَ"باب افتعال میں اسم مفعول جمع ہے۔ ماخذ  "ص۔ف۔و"میں سموئے تصور کو جناب ابن فارس نے اس میں  بیان کیا "يدلُّ على خلوصٍ من كل شَوب"۔"یہ  ایسے خلوص، پاکیزگی کا پیکر ہیں جو  ملاوٹ، عیوب سے منزہ  اوربے داغ ہیں"۔ان کی مثال ایسے  جیسے نور کی کرنوں میں  دھبہ اور سیاہ نقطہ نہیں ہوتا۔

ٱلۡأَخْيَارِ۔ان کی لاینفک،اٹوٹ خصوصیت اور حیثیت اس صفت مشبہ سے بیان فرمائی۔یہ انہیں سرچشمہ خیر بتاتے ہوئے   تمام تخلیق سے بہترین اور اشرف قرار دیتا ہے۔ اس کا ماخذ "خ۔ی۔ر"ہے۔یہ انتہائی جامع تصور کو اپنے میں سموئے ہوئے ہے اور اس میں قدر کی پیمائش کا عنصر (evaluation)اور سبقت، فائق ہونے کابھی ہے۔اس کے احاطہ میں ہر وہ بات ہے جو باعث طمانیت، سکون،بھلائی،بہتری،مسرت و شادمانی، حفاظت، سلامتی ، کامیابی اور فلاح ہے۔

اللہ تعالیٰ کے انسانوں میں سے مردوں کی ایک مخصوص تعداد کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرنے  پر ہم ان کے احسان کو اپنے قلب کی گہرائیوں  میں تسلیم کرتے ہوئے اظہار ممنویت کرتے ہیں۔اللہ اکبر ۔ اللہ اکبر۔اوران تمام کی خدمت میں جن کے اسمائے گرامی ہم جانتے ہیں اور جن کے اسمائے گرامی ہمیں نہیں بتائے گئے جھکی نگاہوں سے انتہائی عقیدت و احترام سے سلام پیش کرتے ہیں۔


بعثت نبی اور انزال ِکتاب لازم و ملزوم ہیں اوربعثت رسول پر  انہیں   پیغام اورکتاب  تھمانا لازم ہے۔

"ٱلنَّبِيِّــۧنَ" کو  دنیا میں اس حالت میں مبعوث /پیدافرمایا کہ ہر ایک کے ہمراہ،معیت میں مدون حالت میں منفرد کتاب کو  مجتمع نازل فرمایا تھا جسےان کے زمان و مکان کے ماحول، تناظر کے تقاضوں کے مطابق  فیصلوں کے لئے سر چشمہ ہدایت قرار دیا گیا۔

كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةٙ وَٟحِدَةٙ فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّــۧنَ مُبَشِّـرِينَ وَمُنذِرِينَ
وَأَنزَلَ مَعَهُـمُ ٱلْـكِـتَٟبَ بِٱلْحَقِّ لِيَحْكُـمَ بَيْـنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِۚ

زمان میں ایک وقت ایسا بھی رہا ہے جب انسان ایک ہم خیال وحدت تھے۔بسبب انسانوں کے مابین نظریاتی اختلاف پیدا ہو جانے پر اللہ تعالیٰ نے  ازخود سے چنے اورتمام پر اشرف اور محترم قرار دئیے مخلص بندوں(نبیوں)کو حریت پرلگائی گئی قیود سے آزاد کرنے کے لئے مقرر فرمایا۔ان کے ذمہ مبنی بر حقیقت طرز عمل اپنانے والوں  کو خوش کن نتائج کی بشارت/ضمانت  دینا اور باطل طرز عمل پر گامزن لوگوں کو لازمی تکلیف دہ عواقب سے متنبہ  کرنا تھا۔
اور ان جناب نے ان تمام(نبیوں)کے ہمراہ ان کے کلام پر مشتمل مخصوص کتاب کو موقع محل کی مناسبت سے مجتمع انداز میں نازل فرمایا تھا۔مقصد یہ تھا کہ وہ(اللہ تعالیٰ/کتاب)ان باتوں کے متعلق لوگوں کے مابین  فیصلہ کر دے جن میں وہ باہمی اختلاف رکھتے تھے۔(حوالہ البقرۃ۔۲۱۳)

مَعَهُـمُ۔اس مرکب اضافی میں مضاف ظرف مکان اور مضاف الیہ ضمیر"ٱلنَّبِيِّــۧنَ"کو راجع ہے  جس سے واضح ہے کہ کوئی ایک نبی بھی ایسے نہیں جن کے دنیا میں ظہور کےساتھ یعنی معیت میں ان کے لئے متعین کردہ منفرد کتاب کو آسمان دنیا میں نازل نہ کیا گیا ہو۔ تمام کے تمام نبیوں کے ساتھ ان کے لئے مخصوص  کردہ  کتاب کو نازل  کیا گیا۔نبی اور رسول میں شخصیت کا فرق نہیں ہوتا۔نبی ہونا شخصیت  کو تمام مخلوقات پر امتیاز اور ممتاز  ہونے کا درجہ دینا ،اللہ تعالیٰ کا ذاتی طور پر انہیں اشرف المخلوقات  کی حیثیت میں پسند اور سیلیکٹ کرنا ہےاور پھربھرپور جوان ہونے پر ان کو رسول مقرر کرنا ایک ہی شخصیت کے دو حوالے ہیں۔ ا للہ تعالیٰ نے بتایا:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِـى كُلِّ أُمَّةٛ رَّسُولٙا

اس حقیقت سے مطلع رہو؛ہم جناب نے ہر ایک امت میں رسول کو لوگوں کو غفلت سے بیدار کرنے کے لئے مبعوث فرمایا تھا۔(حوالہ النحل۔٣٦)

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِٱلْبَيِّنَـٟتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُـمُ ٱلْـكِـتَٟبَ

ماضی کی یہ حقیقت ہے کہ ہم جناب نے اپنے رسولوں کوحقیقت کی جانب رہنمائی کرنےوالی بے مثال مظاہر کی صورت نشانیوں (معجزات)کے ساتھ اقوام کی جانب بھیجا تھا۔اور ہم جناب نے ان تمام کے ہمراہ مجتمع انداز میں ان کے لئے مخصوص کتاب کو نازل فرمایا تھا۔(حوالہ سورۃ الحدید۔25)

آیات مبارکہ میں فعل "بَعَثَ"کا استعمال  معنی خیز اور  ان حالات اور مقصد کو بھی ظاہر کر دیتا ہے جب جب نبیّ   کو دنیا میں بھیجا گیا۔اس  کے ماخذ "ب۔ع۔ث"کے بنیادی معنی اور ان کی تاویل ارادہ و اختیار میں حائل رکاوٹوں کو دور کر کے ارادہ و اختیاریعنی سوچنے سمجھنے،غوروفکر کی صلاحیت  کو بحال کر دیناہیں۔ موت وہ شئے ہے جوارادے اور زندگی کی خود مختار نقل و حرکت میں حائل ہو جاتی ہے۔موت کے بعد حیات کو بحال /تجدید کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔اورنَوْمٚ   یعنی نیند کی حقیقت بھی یہی ہے کہ ا نسان کے ارادے اور خود مختار نقل و حرکت میں حائل ہو کر اُسے حالت سکون میں کر دیتی ہے۔گہری نیند ایک لحاظ سے مانند موت ہے کہ اِس میں بھی انسان دوسروں سے الگ ہو جاتا ہے۔اِس لئے نیند سے واپس ارادے اور خود مختار نقل و حرکت میں لوٹنے /بحال ہونے کیلئے بھی  ٱلْبَعْثِ   کہاہے۔

اللہ تعالیٰ نے  "ٱلنَّبِيُّونَ "اور رسولوں کے متعلق الگ الگ"أَنزَلَ مَعَهُـمُ ٱلْـكِـتَٟبَ"اور"أَنزَلْنَا مَعَهُـمُ ٱلْـكِـتَٟبَ"سے واضح فرمایا کہ دونوں الفاظ     منفرد  عظمت   کے حامل ہستی  اور ان کے فرائض منصبی کے ترجمان ہیں۔ دونوں  مرتبہ باب افعال کا فعل"أَنزَلَ"استعمال فرمایا جو مصدر انزال اور ماخذ"ن ز ل"سے ہے۔اس کے بنیادی معنی کسی شئے کو بلند مقام سے کسی پستی کے  مقام کی جانب اتارنا  اور وہاں براجمان کر دینا ہے۔اور اس میں شئے کو یکبارگی ، ایک وقت میں مجتمع حالت میں  اوپر سے نیچے اتارنا یا کسی کی جانب بھیجنا ہے جن کا ذکر الگ الفاظ سے ہوگا۔

اور باب تفعیل کے فعل"نَزَّلَ"مصدر "تَنزِيلٚ"میں ارباب لغت یہ فرق بتاتے ہیں کہ یہ  قسطوں،وقفے وقفے سے مختلف اوقات میں نیچے اتارنے/بھیجنے کو کہتے ہیں جس میں ابتداء سے تکمیل تک  وقت کا ایک عرصہ ہے۔اس لئے وقت کے ایک مقام پر جس قدر"تَنزِيلٚ"کے انداز میں پہنچایا جا چکا ہے اور اسے مجتمع کر لیا گیا ہے تو وقت کے اس مقام وہ مجموع"أُنزِلَ"(فعل مجہول)وہ ہے جو پہنچایا جا چکا ہے۔ماضی کے تمام رسولوں کے لئے کتاب کے حوالے سے کبھی "تَنزِيلٚ" نہیں کہا گیا،ان تمام کا نزول یکبارگی،ایک ہی بار مجتمع حالت میں تھا۔ مگر قرءان مجید  منفرد"ٱلْـكِـتَٟبُ"ہے جسے نہ صرف مکمل کتاب کی صورت  یکبارگی بوقت دنیا میں "خَاتَـمَ ٱلنَّبِيِّــۧنَ"کے ظہور پذیر ہونے پر اور پھر رسالت مآب بننے کے موقع پر آسمان دنیا سے زمین پر ان کی خدمت میں پیش کرنے  کے لئےبھیجا گیا تھا۔اور پھر"تَنزِيلٚ"کے انداز میں  لوگوں کو منتظر رکھتے ہوئے  مکمل مدون ہونے تک پہنچایا جاتا رہا۔

اگر ہم اس انداز میں کتاب کو پڑھنے کے عادی نہیں  جیسے کوئی شخص پانی کی سطح پر بہے جا رہا ہو تومنفرد کتاب نازل کرنے  کے متعلق بتانے کے ساتھ رسولوں  کو بے مثال مادی مظاہر(بِٱلْبَيِّنَـٟتِجنہیں معجزات کہا جاتا ہے)کے ساتھ بھیجنے کا  پڑھ کر احساس ہو جائے گا کہ نبی اور رسول ایک  شخصیت  ہیں۔ رسالت کے فرائض سونپے جانے پر"معجزات"دکھائے گئے تھے۔یہ نکتہ ذہن نشین کر لیں،موضوع سے ہی متعلق ہے، رسول کریم محمّد ﷺاور قرءان مجید سے قبل تمام رسولوں کو منفرد کتاب کے ساتھ ساتھ  کوئی نہ کوئی ایسا مادی مظاہرہ(عربی میں آیت،اردو میں معجزہ)بھی لوگوں کو دکھانے کے لئے دیا گیا تھا جو اُن کے ادراک کے لئے اُس وقت مافوق الفطرت تھا۔اس  معجزہ کو رسول ہونے کی سند قرار دیا جاتا تھا۔

اس غیر مبہم اور سادہ الفاظ میں تمام کے تمام نبیوں اور رسولوں  کے ساتھ ایک منفرد کتاب کے بھیجے جانے کی خبر سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر کوئی بھی قرءان  مجید کو ماننے کا دعویٰ کرنے والا شخص  بغیر ایک منفرد کتاب کے نبی یا رسول ہونے کا اعلان کرے تو اس کے بارے تو سمجھ آتی ہے کہ وہ شیطانی فریب(delusion)اور ہذیان، واہمہ(hallucination)میں ایسا مبتلا ہوا کہ شیطان بھی اس کی اتباع میں ہو گیا مگر ان کے عقل و فہم پر صد افسوس  ہے جو ایسے لوگوں کو نبی اور رسول  مان لیتے ہیں بغیر پوچھے کہ اگر نبی ہو تو اپنے ساتھ نازل کردہ منفرد کتاب کو تو منظر عام پر لاؤ۔کاش کہ مرزا غلام احمد اور راشد خلیفہ کے ہم عصروں میں قرءان مجید کو سمجھنے والوں میں کوئی ماہر نفسیات ایسا ہوتا جو دونوں کو بیان کردہ حقائق کا سامنا کراتا ، جو ان  جیسے شخصیت میں بگاڑ(personality disorder)کے نفسیاتی مریضوں کے علاج اور تھراپی کا طریقہ ہے۔(مگر لگتا ہے  بعض خود  بھی خودستائی کے چکر میں  کہتے تھے "ہمیں بھی وہیں سے ملتا ہے جہاں سے نبیوں کو ملتا تھا")

(delusion-an idiosyncratic belief or impression maintained despite being contradicted by reality or rational argument, typically as a symptom of mental disorder)

اس طرح تمام زمان و مکان کے لئے مساوی اصول کوبرقرار رکھا گیا کہ منبع ہدایت اللہ تعالیٰ اور سر چشمہ ہدایت اپنے اپنے زمان میں نبیوں  کے ظہور پر نازل کردہ منفرد کتاب ہے جو فرائض رسالت سونپے جانے پر لوگوں تک پہنچانا لازم تھا:

وَإِذْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَـٟـقَ ٱلنَّبِيِّــۦنَ لَمَآ ءَاتَيْتُكُـم مِّن كِتَٟبٛ وَحِكْمَةٛ
ثُـمَّ جَآءَكُمْ رَسُولٚ مُّصَدِّقٚ لِّمَا مَعَكُـمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥۚ
قَالَ ءَأَقْرَرْتُـمْ وَأَخَذْتُـمْ عَلَـىٰ ذَٟلـِكُـمْ إِصْرِىۖ قَالُوٓا۟ أَقْرَرْنَاۚ
قَالَ فَٱشْهَدُوا۟ وَأَنَا۟ مَعَكُـم مِّنَ ٱلشَّٟهِدِينَ ٨١

آپ (ﷺ)بیان کردہ  نبیوں کے لوگوں سے رابطے سے ماقبل          انہیں  فرائض سونپنے کے واقعہ کا ذکر کریں     جب ا للہ تعالیٰ نے نبیوں سے میثاق لیا(جس کے نکات یہ تھے):”میں جب تم لوگوں کوانفرادی طور پر  عنایت فرما چکا ہوں گا،وہ عنایت   کتاب (ام الکتاب)میں سے کچھ حصہ اورحکمت کے بعض نکات لوگوں کو پہنچانے کے لئے ہیں ۔
بعد ازاں انہیں لوگوں تک پہنچا دینے  پرجب آپ کے پاس رسول آجائے گا جن کی خصوصیت اور پہچان یہ ہوگی کہ  جو  کتاب و حکمت میں سے عنایت کیا گیا آپ  کے پاس موجود ہو گا وہ  اس موقعہ پر اس کے تصدیق کنندہ ہوں گے۔تو آپ لوگ ان(رسول)پر ضرور اُس وقت ایمان لایا کریں گے اور اس موقع محل میں ضرور ان کی مدد  کیا کریں گے"۔
انہوں (اللہ تعالیٰ)نے پوچھا"کیا آپ لوگوں نے   اس میثاق  کابخوشی اقرار کر لیا ہے۔اورمیرے اس تفویض  کردہ ذمہ داری کے بوجھ  کو اٹھانے اور  نباہنے کے لئے سمجھ کر  اپنا لیا ہے؟ انہوں (نبیوں)نے کہا ”ہم نے بخوشی اس کا اقرار کیا ہے(اس لئے   لوگوں  کو پہنچا کر لازمی نباہیں گے")۔
انہوں (ا للہ تعالیٰ)نے کہا’تم لوگ گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ایک ہوں۔“(آلِ عمران۔ ۸۱)

"مِيثَـٟـقَ ٱلنَّبِىِّــۦنَ":اس مرکب    اضافی کا پہلا لفظ فعل کا                              مفعول  اور ماخذ"و ث ق"ہے۔اس کے بنیادی معنی  مستحکم اور مضبوط کرنا ہیں۔ میثاق وہ عہد ہے جس کی دوسرے فریق نے توثیق اور پابند رہنے کی  تائید اور تصدیق کر دی ہو۔یہ وعدہ اور معاہدہ دونوں سے مختلف ہے۔ وعدہ یک طرفہ اعلان ہے کسی  کام کو کرنے یا اس سے اجتناب کرنے کے متعلق۔عہد اور معاہدہ  دو فریقوں کے مابین وعدہ ہے کہ دونوں فلاں فلاں   بات کے پابند ہوں گے۔فریق  دو فرد یا  جماعتیں ہو سکتی ہیں۔ایک فریق کے عہد توڑنے پر معاہدہ ختم ہو  جائے گا۔مگر میثاق کا ایک فریق لازماً گروہ/جماعت پر مشتمل ہے اور میثاق   کوکالعدم نہیں کیا جا سکتا چاہے پابند جماعت کے کچھ لوگ اس کی تنقیض کر دیں۔یہ ناقابل  تنسیخ ، اٹل ، مستقل  (irrevocable)ہے۔

میثاق نبین کو غور سے پڑھیں تو دکھائی دے جاتا ہے کہ ایک ایسے نظام کو وجود دیا جانے لگا تھا جو زمان و مکان پر مشتمل ہو گا۔زمان کا دورانیہ ہوتا ہے چاہے  اربوں سالوں پر محیط ہو یا پلک جھپکنے کا دورانیہ۔اور زمان میں اول بیتے ہوئے دورانیے کو قانونی اور اخلاقی حیثیت صرف اُس وقت حاصل ہوتی ہے اگر اُس کی تصدیق کی جائے۔کتاب و حکمت کی بات اُسے تسلیم کیا جا سکتا ہے جس کی زمان کے کسی بھی ”حال، present“میں تصدیق کی گئی ہو اور تصدیق کی جا سکے۔جس کسی بات(حدیث)کی تصدیق نہیں اُسے حقیقت تسلیم نہیں کیا سکتا  اور اُس کی وقعت محض مفروضے، گمان و ظن سے بڑھ کر کچھ نہیں چاہے ہم اسے ”سچ“ کہنے کی بجائے ”صحیح“(بمعنی صحت مند،عیب سے پاک، قابل بھروسہ)کہہ دیں۔جب ہم کسی بھی شئے اور بات کے متعلق وقت کے کسی ایک مقام پر اُسے ”صحیح“کہتے اور قرار دیتے ہیں تو ہماری بات وقت کے اُس مقام تک ”صحیح“کے طور  محدود ہوتی ہے کیونکہ یہ مستقبل کے تمام زمان کو احاطے میں نہیں لے سکتی۔ ”صحیح“اور ”سچ، صدق“ ایک دوسرے سے منفرد ہیں اور ”سچ“اور ”حقیقت“بھی ایک دوسرے سے منفرد معنی اور مفہوم کے حامل ہیں۔سچ  زمان و مکان  کے حوالے/نسبت سے ہے اور حقیقت وہ ہے جو زمان و مکان  کے حوالےمیں مقید نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق نبیوں کے مجموع کے تمام افراد سے لئے گئے  میثاق(حلف)کی شقوں کا پہلا نکتہ یہ تھا:

لَمَآ ءَاتَيْتُكُـم مِّن كِتَٟبٛ وَحِكْمَةٛ

 ”میں جب تم لوگوں کوانفرادی طور پر  جوعنایت فرما چکا ہوں گا،وہ عنایت   کتاب (ام الکتاب)میں سے کچھ حصہ اورحکمت کے بعض نکات  لوگوں کو پہنچانے کے لئے ہیں ۔

اس  اور ذیلی جملوں کا انداز بیان اور الفاظ کا چناؤایسے ہے جیسے ہم کائنات کی سب سے عظیم الشان  حلف برداری کی تقریب میں مدعو ہیں اور میثاق طے پاتے ہوئے سن رہے ہیں۔حرف ابتدا "لَ"بعد والی بات کے امکان کو قسمیہ کے انداز میں یقینی قرار دیتا ہے۔اسم موصول جملے کا مبتدا اور جملہ فعلیہ اس کا صلہ ہے۔ "ءَاتَيْتُكُـم"تین الفاظ پر مشتمل مکمل  جملہ ہے،فعل ماضی جو مستقبل میں مکمل ہو گا(future perfect)باب افعال سے ہے جس کے معنی کسی شئے کے عنایت کرنے اور کسی کو پہنچا دینے کے ہیں۔اس لئے اس کے مفعول دو ہیں۔درمیان میں فاعل کی ضمیر متکلم واحد مذکر اور آخری ضمیر جمع مذکر مخاظب  ہے جو مفعول بہ اول ہے اور مفعول ثانی جو اسم موصول کا عائد ہے  محذوف ہے کیونکہ اپنے آپ واضح ہے۔ جار و مجرور "مِّن كِتَٟبٛ"اور اس کا معطوف  مفعول ثانی کے محذوف حال سے متعلق ہے۔’حال‘‘ عموماً مقصد اور انجام /قطعیت(finality)کو ظاہر کرتا ہے۔ حرف جر  التبيينية  یعنی اس کو متبین کرتا ہے جو عنایت  کیا اور پہنچایا گیا ہو گا۔اس طرح انفرادی طور پر مخاطبین کو جو  دیا جائے گا وہ ایک کتاب اور حکمت کا منفرد جزو ہو گا اور اپنے آپ میں منفرد کتاب۔

عربی زبان سے شناسا آپ سب کو معلوم ہے کہ ضمیر جمع مذکر مخاطب  ’’كُـمْ‘‘اجتماعی اورانفرادی طور پرہر ایک مخاطب کے لئے ہوتی ہے۔یہ بات پیش نظر نہیں رکھیں گے تو مفہوم اور مدعا کو سمجھنے میں غلطی  کا امکان  رہے گا۔تمام کے تمام  نبیوں علیہم السلام کو انفرادی  طور ایک کتاب (جسے دوسرے مقام پر ام الکتاب کہا گیا ہے)میں  سےکچھ حصہ نکال  کرایک منفرد کتاب (ظاہر ہے کہ اس کا ٹائٹل/نام بھی منفرد ہونا تھا)بنا کر دینا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا تھا، میثاق کے ایک فریق کی حیثیت سے۔ایسا ہو جانے پر ہر ایک ایک نبی علیہ السلام پرایک خاص وقت اور وقوعے کے موقع پرسونپی گئی ذمہ داری کو نبھانا تھا۔

نبیوں  علیہم السلام کا یہ میثاق/حلف ان کی ذمہ داری تھی،ان کا ایک بوجھ تھا جس کو انہوں نے بارضا و رغبت قبول کیا تھا، اٹھانے پر رضامند ہوئے   تھے(عہد ہمیشہ رضامندی سے ہوتا ہے اور بوجھ،ذمہ داری کا پہلو لئے ہوتا ہے)۔نبیوں کو زمان و مکان میں کتاب و حکمت میں سے دیا جانا تھا۔زمان  میں پیچھے چلتے ہیں اور پھر وقت میں سفر(Time travel) کرتے ہوئے حال میں پہنچتے ہیں۔انسان ہم خیال وحدت کی بجائے اختلافات کا  شکار ہو گئے۔ اللہ  تعالیٰ نے اولین نبی علیہ السلام کو مبعوث فرما دیا اور بھرپور جوان ہونے پر انہیں رسالت کے فرائض تفویض فرمائے  اور ام الکتاب اور حکمت  میں سے انہیں عنایت فرما کر لوگوں کے لئے بشیر اور نذیرمقرر فرما دیا۔اس کے علاوہ ان پر میثاق کی ذمہ داری یہ تھی:

ثُـمَّ جَآءَكُمْ رَسُولٚ مُّصَدِّقٚ لِّمَا مَعَكُـمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥۚ

بعد ازاں  انہیں لوگوں تک پہنچا دینے  پرجب آپ کے پاس رسول آجائے گا جن کی خصوصیت اور پہچان یہ ہوگی کہ  جو  کتاب و حکمت میں سے عنایت کیا گیا آپ  کے پاس موجود ہو گا وہ  اس موقعہ پر اس کے تصدیق کنندہ ہوں گے۔تو آپ لوگ ان(رسول)پر ضرور اُس وقت ایمان لایا کریں گے اور اس موقع محل میں ضرور ان کی مدد  کیا کریں گے"۔

خطاب میں بلاغت کا عنصر تو عموماً موجود ہوتا ہے مگرتمام نبیوں کو مخاطب کر کے محض دس الفاظ پر مشتمل یہ جملہ فن بلاغت کے عروج کا مظہر ہے۔زمان و مکان اور بساط عالم کوسمیٹ دیا۔سلسلہ رشد و ہدایت کے آغاز،تسلسل سے جاری رہنے اور اختتام اور اس کے مابین جو ہونا تھا ،ان دس لفظوں میں اسے سمو دیا۔ایک نبی یا چند کو کتاب و حکمت میں سے زمان اور مکان کے کسی خاص مقام پر لوگوں کو پہنچانے کے لئے دیا جائے گا۔اس کے بعد حرف"ثُـمّ"کے استعمال نے مخاطبین اوربعد کے قارئین کے لئے بھی کچھ پنہاں نہیں رہنے دیا کہ یہ سلسلہ کیسے جاری رہے گا اور کب اختتام پذیر ہو گا۔یہ حرف واقعات اور بات کی کڑیوں کو اس وقت جوڑتا ہے جب بعد والے واقعہ کی نوعیت اور کیفیت قبل والے واقعہ سے مختلف ہو۔یہ حرف واقعات کے لمحہ بہ لمحہ تسلسل کا اظہار نہیں کرتا بلکہ وقت کے فاصلے کی نشاندہی کرتا ہے جب قبل ازیں بیان کردہ سے مختلف بات کا ظہور پذیر ہونا ہے۔اس کے معانی اور مفہوم حرف ”ف“اورحرف ”و“سے مختلف اورمنفردہیں۔ قرءانِ مجید میں یہ حرف تین سو اڑتیس مرتبہ استعمال ہوا ہے۔سوائے ان مقامات کے جہاں کسی بات کی دو مرتبہ تکرار کے درمیان استعمال ہوا (سورۃ الانفطار، ۷۱، ۸۱، التکاثر۔۳،۴)دوسرے مقامات پر جہاں واقعات کے درمیان استعمال کیا گیا وہاں پہلے اور بعد میں بیان ہونے والے واقعہ کی نوعیت اورکیفیت جدا جدا ہے اور ان کے مابین وقت کا فاصلہ ہے،مختصر(قریب)یا طویل۔اس حرف کی انفرادیت کو مدنظر نہ رکھا جائے تو کئی مقامات پر بیان کئے گئے واقعات کے پس منظر کو سمجھنے میں دِقت اور غلطی ہوتی ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ میثاق لینے کے متعلق عوام الناس کو بتا رہے ہیں کہ اپنے ذاتی نام الرَّحمٰن ذوالجلال و الاکرام سے اس میثاق کےوہ فریق نہیں بنے بلکہ مقتدر اعلیٰ اور کائنات کے نظام کے فرمانروا کے ٹائٹل/خطاب اللہ تعالیٰ کی حیثیت میں میثاق/حلف لیا تھا جس سےان کہے الفاظ میں واضح اظہار ہے کہ میثاق/حلف کی پاسداری سے انحراف قابل گرفت اور موجب سزاتھا اورہے۔اور اس میثاق کا اپنے آپ کو پابند کرنے کا حلف لینے والےنوع انسان کے افراد پر مشتمل ایک جماعت ہیں جن کا نسبتی تعارف اور پہچان "ٱلنَّبِيُّونَ"ہے۔اور پھران تمام سے ضمیر جمع مذکر حاضر’’كُـمْ‘‘سےاجتماعی طور پر مخاطب ہوتے ہوئے میثاق کے نکات /articlesبیان فرمائے۔اس طرح خطاب میں بیان کردہ بات اجتماعی اورانفرادی طور پرہر ایک مخاطب کے لئے ہوتی ہے۔اس کا اطلاق ہر ایک پر انفرادی حیثیت سے اس وقت ہو گا جب"ءَاتَيْتُمیں دونگا/عنایت کر چکا ہوںگا"؛’’كُـمْ‘‘تم کو انفرادی اور اجتماعی طور پر۔کتاب و حکمت میں سے اجتماعی طور پر دینے کی ایک مثال/واقعہ موسیٰ علیہ السلام اور ھارون علیہ السلام کے متعلق قرءان مجید میں درج ہے۔

یہ ظاہر ہے کہ کتاب و حکمت میں سے منفرد حصہ ہر ایک کو دینے کا مقصد ان کے ذاتی مطالعہ اور بروئے کار لانے تک تومحدود نہیں تھا بلکہ "ثُـمّ"سے واضح ہے کہ اپنے لوگوں کو رسالت کے فرائض ادا کر کے پہنچائے جانے کے بعدکے عرصہ میں جب جب یہ ہو"جَآءَكُمْ رَسُولٚ "تم لوگوں کے پاس ایک رسول پہنچ جائے گا"۔یہ ہے بلاغت کی معراج۔یہاں’’كُـمْ‘‘سے مراد محض تمام نبی نہیں بلکہ انفرادی طور پر نبی اور ان کی قوم شامل ہے جن کی جانب وہ خود رسول مبعوث ہوں گے۔ایک زمانہ بیت جانے کے بعد ان ہی کی قوم کی جانب بھیجے جانے والے ایک "رسول"کوان کی صفت اورشناخت کو"مُّصَدِّقٚ لِّمَا مَعَكُـمْ"سے متبین فرمایا۔اس طرح ہر نئے مبعوث فرمائے رسول نے اپنے سے قبل نازل کردہ کی تصدیق فرمائی۔اس تصدیق کئے جانے پر میثاق کی شرط یہ تھی"لَتُؤْمِنُنَّ بِهِۦ وَ لَتَنصُرُنَّهُۥ"کہ اس رسول پر لازماً ایمان لانااور اس وقت تک منحرف ہوئے لوگوں کو واپس راہ راست پر لانے کے مشن میں ان کی حتی المقدورمدد کرنا ہو گی۔

اگر ہماری عادت تدبر سے(یعنی قبل ازیں بیان کردہ متن ذہن میں رکھ کر)مطالعہ کرنے کی ہے تواس ذیلی جملے میں بلاغت کے حوالے سے جو ان کہی بات موجود ہے وہ ادراک میں آجائے گی۔اللہ تعالیٰ کے نبی علیہ السلام نے اپنے میثاق کا اپنے پر ایمان لانے والوں  سے   میثاق لے کر پابند کرنا تھا کہ اگر ان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کا رسول آئے جو مصدق ہو یعنی اس کی تصدیق کرے جو نازل کردہ تمہارے پاس ہے تووہ ایمان لائیں گے۔اللہ تعالیٰ کے ہر نبی نے بحثیت رسول اپنے پر ایمان لانے والوں کو اس میثاق کا پابند کیا تھا:

وَلَمَّا جَآءَهُـمْ رَسُولٚ مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ مُصَدِّقٚ لِّمَا مَعَهُـمْ

 اور جوں ہی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایسے ر سول ان (بنی اسرائیل)کے پاس پہنچ گئے جن کے متعلق انہیں تحریری طور پر پہلے سے مطلع اور ایمان لانے کا پابند کیا ہوا تھا،۔اور جن کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تصدیق و توثیق فرمانے والے ہیں جو ان کے پاس نازل کردہ کلام اللہ ہے۔(حوالہ البقرۃ۔۱۰۱)

اورمیثاق کی اس شق کی تعمیل کرتے ہوئے  اللہ تعالیٰ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام نے رسالت کے فرائض تفویض کئے جانے پر کہا تھا:

وَمُصَدِّقٙا لِّمَا بَيْـنَ يَدَىَّ مِنَ ٱلتَّوْرَىٰةِ

اور میں اس کی تصدیق کرنے والے کی حیثیت سے آیا ہوں جوتورات  (الواح)میں درج کردہ میں سے میرے سامنے موجود ہے۔(حوالہ سورۃ البقرۃ۔۱۰۱)

ابتدا سے زمانے میں ہر نئے مبعوث فرمائے گئے اللہ تعالیٰ کے رسول اور ان پر نازل کردہ کتاب نے اپنے سے قبل کے رسول اور نازل کردہ کتاب کے لئے مصدق/تصدیق و توثیق کا کردار ادا کیا:

وَقَفَّيْنَا عَلَـىٰ ءَاثَـٟرِهِـم بِعَيسَى ٱبْنِ مَـرْيَـمَ مُصَدِّقٙا لِّمَا بَيْـنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلتَوْرَىٰةِۖ
وَءَاتَيْنَـٟهُ ٱلْإِنجِيلَ فِيهِ هُدٙى وَنُورٚ
وَمُصَدِّقٙا لِّمَا بَيْـنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلتَّوْرَىٰةِ وَهُدٙى وَمَوْعِظَةٙ لِّلْمُتَّقِيـن٤٦

اور ہم جناب نے ان(نبیوں)کے چھوڑے نقوش و اثرات پرمشن کے تسلسل کو بذریعہ عیسیٰ(علیہ السلام)،ابن مریم(صدیقہ)،جاری رکھا۔وہ (عیسیٰ علیہ السلام)اس کی تصدیق و توثیق کرنے والے تھے جو ان سے قبل نازل کردہ تھا،تورات کے مندرجات میں سے۔
اور ہم جناب نے انہیں اپنے کلام پر مشتمل کتاب بعنوان انجیل کو عنایت کیا تھا۔زندگی کو راست روی سے بسر کرنے کا ہدایت نامہ اورقلوب کو بینائی/حیات کو تسلسل دینے والا نور/سفید روشنی اس کے مندرجات میں موجود تھا۔
اور وہ(انجیل)اس کی تصدیق و توثیق کرنے والا تھا جو اس سے قبل نازل کردہ تھاتورات کے مندرجات میں سے۔اوریہ منزل کی جناب ہادی/رہنما اور ایک سبق آموز نصیحت کا کردار ادا کرتا تھا ان لوگوں کے لئے  جو تندہی سے محتاط اور غلط روش سے اپنے آپ کو محفوط رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے پناہ کے خواستگار رہے۔(المائدہ۔
٤٦)

ثُـمَّ قَفَّيْنَا عَلَـىٰٓ ءَاثَـٟرِهِـم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَابِعِيسَى ٱبْنِ مَـرْيَـمَ وَءَاتَيْـنَـٟهُ ٱلْإِنجِيلَ

اوربعد ازاں زمان میں ہم جناب نے ان(قبل ازیں بھیجے گئے رسولوں)کے چھوڑے نقوش و اثرات پرمشن کے تسلسل کو بذریعہ  اپنے رسولوں  کےجاری رکھا۔اور ہم جناب نے ان(رسولوں)کے چھوڑے نقوش و اثرات پرمشن کے تسلسل کو بذریعہ عیسیٰ(علیہ السلام)،ابن مریم(صدیقہ)،جاری رکھا۔اور ہم جناب نے انہیں اپنے کلام پر مشتمل کتاب بعنوان انجیل کو عنایت کیا تھا۔(حوالہ الحدید۔۲۷)

اللہ تعالیٰ نے زمین پر بھیجتے وقت آدم علیہ السلام سے  وقتاً فوقتاًہدایت  بھیجنے کے وعدے کونبیوں کے ذریعے نبھایا۔اورہر نبی علیہ السلام نے اپنے پر ایمان لانے والوں کو اپنے میثاق کا پابند کیا کہ وہ زمان میں آئندہ  مبعوث فرمائے جانے والے رسولوں پر ایمان لائیں گے  جن کی پہچان یہ ہوگی کہ وہ اس نازل کردہ کی تصدیق کریں گے جو ان کے پاس پہلے نازل کردہ میں سے موجود ہے۔اور جیسا ہم نے اوپر درج آیت مبارکہ میں دیکھا  نئے آنے والے رسول پر نازل کردہ کتاب نے بھی اپنے سے پہلے نازل کردہ  کتاب کے مندرجات کی تصدیق کی ۔ اس طرح واضح ہے کہ انسان زمان میں اس میثاق کا پابند رہا ہے کہ وہ اپنے مستقبل میں مبعوث ہونے والے رسول پرایمان لائیں گے اور اُن کی ان کے مشن کی تکمیل میں مدد کریں گے۔

ثُـمَّ جَآءَكُمْ رَسُولٚ مُّصَدِّقٚ لِّمَا مَعَكُـمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥۚ

 بعد ازاں انہیں لوگوں تک پہنچا دینے  پرجب آپ کے پاس رسول آجائے گا جن کی خصوصیت اور پہچان یہ ہوگی کہ  جو  کتاب و حکمت میں سے عنایت کیا گیا آپ  کے پاس موجود ہو گا وہ  اس موقعہ پر اس کے تصدیق کنندہ ہوں گے۔تو آپ لوگ ان(رسول)پر ضرور اُس وقت ایمان  لایا کریں گے اور اس موقع محل میں ضرور ان کی مدد  کیا کریں  گے"۔

میثاق کے معنی یہ ہیں کہ اگر اس کے پابند لوگوں میں سے بعض یا اکثریت منحرف  (فاسق)ہو جائے تو بھی  سب کے لئے نافذ العمل رہے گا ہر ایک ایک فرد  پر ۔ یہ نبیوں سے لئے گئے حلف کے نکات ہیں۔حلف اٹھانے والا اور اس سے حلف لینے والا ہمیشہ اس حلف نامے پر گواہ ہوتے ہیں۔ انبیاء کرام علیہم السلام کا یہ میثاق/حلف ان کی ذمہ داری تھی،ان کا ایک بوجھ تھا جس کو انہوں نے بارضا و رغبت قبول کیا تھا،اٹھانے پر رضامند ہوئے تھے ۔   میثاق نبھانے اور ذمہ داری کے بوجھ سے سبکدوش ہونے کیلئے   اپنے اپنے زمان اور مکان میں اپنے ماننے والوں کو منتقل کرنا تھا۔انہوں نے اپنے ماننے والوں سے ا للہ کا میثاق لینا تھا کہ آنے والے اُس رسول پر ایمان لائیں گے جو اُس کی تصدیق کرے جو کتاب میں سے انہیں دیا گیا تھا۔

وَلَقَدْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَـٟـقَ بَنِىٓ إِسْرَٟٓءِيلَ وَبَعَثْنَا مِنـهُـمُ ٱثْنَىْ عَشَـرَ نَقِيبٙاۖ
وَقَالَ ٱللَّهُ إِ نِّـى مَعَكُـمْۖ  لَئِنْ أَ قَمْتُـمُ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَيْتُـمُ ٱلزَّكَوٰةَ
وَءَامَنتُـم بِرُسُلِـى وَعَزَّرْتُـمُوهُـمْ

 مبنی بر حقیقت ماضی کی خبر سے مطلع ہو جاؤ؛اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے میثاق لیا تھا۔اور ہم جناب نے ان میں سے بارہ سرکردہ/سربراھان قبیلہ کوبطورذمہ داران تعمیل قرار دیا۔
اور اللہ تعالیٰ نے میثاق کے نکات بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا’’یقیناً میں تمام تر مہربانیوں کے لئے تمہارے ساتھ ہوں اگر تم لوگ استقلال واستقامت،منظم طریقے سے صلوٰۃ کی ادائیگی کرتے رہو گے اورمعاشرے کے نظم و نسق اور معاشی اٹھان کے لئے مالیات دیتے رہو گے۔
اور تم لوگ میرے رسولوں پر ایمان لاتے رہو گے اوران کا ادب و احترام کرتے ہوئے ساتھ دو گے۔(حوالہ المائدہ۔۱۲)

عیسیٰ علیہ السلام نے رسالت کے فرائض تفویض کئے جانے پر کہا تھا:

وَمُصَدِّقٙا لِّمَا بَيْـنَ يَدَىَّ مِنَ ٱلتَّوْرَىٰةِ

اور میں اس کی تصدیق کرنے والے کی حیثیت سے آیا ہوں جوتورات  میں درج کردہ میں سے میرے سامنے موجود ہے۔(حوالہ سورۃ البقرۃ۔۱۰۱اور الصف۔6)

عیسیٰ علیہ السلام نے ذاتی طور پر اور ان پر نازل کردہ کتاب انجیل نے بھی اس کی تصدیق فرمائی جو توریت میں سے سامنے موجود تھا۔ لیکن اس کے باوجود بنی اسرائیل کے اکثریتی گروہ نے اپنا میثاق توڑ دیا اوران پر ایمان لانے اور تعظیم کے ساتھ حمایت و مدد کرنے کی بجائے انہیں قتل کروانے کی گھناؤنی سازش میں لگ گئے۔اس کا نتیجہ بتایا گیا:

فَبِمَا نَقْضِهِـم مِّيثَٟقَهُـمْ لَعَنَّـٟهُـمْ

چونکہ بلاشبہ  اپنے میثاق کو توڑنے کا انہوں نے جرم کیا تھا۔ہم جناب نے انہیں  ناقابل توجہ اور اعتنا قرار دے کر ملعون کر دیا۔(حوالہ المائدہ۔13)

تصدیق زمانے میں قبل ازیں ہو چکے کی کرتے ہیں۔تصدیق بیتے زمانے کی باتوں کی ہوتی ہے۔ مستقبل کی تصدیق نہیں  بلکہ اس میں پنہاں کی خبر دی جاتی ہے۔عام فہم بات ہے کہ زمانے میں پہلے تشریف لانے والے رسول اورانہیں دی گئی کتاب و حکمت اپنے بعد آنے والے رسول اور ان کی کتاب کی تصدیق نہیں کر سکتی۔ عیسیٰ علیہ السلام نے ا س تصدیق سے اپنے میثاق کی پہلی شق کو نبھا یا تھا۔میثاق کی دوسری شق آنے والے رسول پر ایمان لانا اور ان کی عزت و توقیر سے مدد کرنا تھی۔  عیسیٰ علیہ السلام پر سلام ہو انہوں نے میثاق کی دوسری شق کو بھی کمال احسن طریقے سے نبھا دیا تھا۔ا للہ رب ا لعزت نے عیسیٰ علیہ السلام کی بنی اسرائیل سے گفتگو کو یوں بتایا:

وَإِذْ قَالَ عِيسَى ٱبْنُ مَـرْيَـمَ يٰبَنِىٓ إِسْرَٟٓءِيلَ إِ نِّـى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُـم
مُّصَدِّقَٙا لِّمَا بَيْـنَ يَدَىَّ مِنَ ٱلتَّوْرَىٰةِ
وَمُبَشِّرَۢا  بِرَسُولٛ يَأْتِـى مِنۢ بَعْدِى ٱسْـمُهُۥٓ أَحْـمَدُۖ

مبنی بر حقیقت ماضی کی خبر سے مطلع ہو جاؤ؛جب عیسیٰ(علیہ السلام)،ابن مریم،نے کہا۔اے بنی اسرائیل! میں تم لوگوں کی جانب اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔
اور میں اس کی تصدیق کرنے والے کی حیثیت سے آیا ہوںجوتورات  میں درج کردہ میں سے میرے سامنے موجود ہے۔
اورمیں دنیا کویہ خوشخبری دینے والا ہوں،
میری طبعی موت کے بعد فقط ایک رسول تشریف لائیں گے۔ان کا نام احمد(ﷺ)ہے‘‘۔ (حوالہ الصف۔6)

عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے قبل بنی اسرائیل کے میثاق کی اہم شق آنے والے رسولوں(جمع کا صیغہ)پر ایمان لانا اور عزت و توقیر کے ساتھ مددوحمایت کرنا تھی  ۔ عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو واضح کر دیا کہ اُن کے طبعی  موت کےبعد اب زمان و مکان میں فقط ایک رسول نے آنا ہے اور یوں ان کے رسولوں پر ایمان لانے کے میثاق کو اپنے بعد فقط ایک رسول پر ایمان لانے تک محدود(modify,amend) کر دیا۔مرکب جاری اوراضافی"مِنۢ بَعْدِى"اپنے سے قبل فعل مضارع سے متعلق ہے اور اس کے فاعل کے آنے کے وقت کو متبین کرتا ہے۔"بِرَسُول"اسم فاعل "مُبَشِّرَۢا"کا تعدیہ ہے اور جملہ"يَأْتِـى مِنۢ بَعْدِى"ان رسول کو متبین کرنے کے لئے وصف ہے۔یہ در حقیقت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب سے آقائے نامدار ﷺ پر ختم نبوت کا اعلان تھا۔عیسیٰ علیہ السلام مبشر اور مؤذن    خَاتَـمَ ٱلنَّبِيِّــۧنَ ہیں ۔اور آخری رسول اللہ کی آمد کے مبشر ہیں۔

عربی زبان کا مرکب اضافی مِيثَـٟـقَ ٱلنَّبِىِّــۦنَ اپنے آپ میں  اس بات کا مظہر ہے کہ یہ ایسے عظمت و رفعت، تخلیقات میں معتبر ترین قرار پائے  جنس انسان میں مردوں کا جھرمٹ ہیں جن کی ایک مخصوص تعداد ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی تعداد اور سب کے نام ظاہر کرنے کوسامعین اور قارئین کے لئے ضروری نہیں سمجھا۔ہمیں بھی ہوا میں تیر چلا کر تخیل سے اندازے نہیں لگانے چاہئے کیونکہ سوائے اس علم کے جو اللہ تعالیٰ کسی سے شیئر کرنا چاہتے ہیں ہم ان کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے  زمان میں نبیوں کی دنیا میں آمد کے سلسلہ کی ابتدا اور منتہا کو ۔ مِيثَـٟـقَ ٱلنَّبِىِّــۦنَ میں آسان اور واضح ترین الفاظ میں  ہمیں بتا دیا ہے۔ تمام کے تمام نبیوں میں سے ایک نبی نے ان تمام کا ’’خَاتَـمَ‘‘ہونا تھا اور رسالت کے فرائض تفویض ہونے پر انہوں نے اپنے  سے قبل کے تمام رسولوں اور ان پر ام الکتاب میں سے نازل کردہ کی تصدیق  و توثیق کے لئے مصدق بننا تھا ۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ ٱلنَّبِيِّــۦنَ مِيثَـٟـقَهُـمْ وَمِنكَ
وَمِن نُّوحٛ وَإِبْرَٟهِيـمَ وَمُوسَـىٰ وَعِيسَى ٱبْنِ مَـرْيَـمَۖ

میثاق کے متعلق لوگ حقیقت جان لیں؛جب ہم جناب نے نبیوں سے ان کا میثاق لیا تھا،اور آپ(ﷺ)سے میثاق لیا تھا۔
اور نوح اور ابرہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم (علیہم السلام)سے میثاق لیا تھا۔(حوالہ سورۃ الاحزاب۔۷)

اس آیت مبارکہ میں سورۃ ءال عمران کی آیت۔۸۱ میں بیان کردہ مِيثَـٟـقَ ٱلنَّبِىِّــۦنَ  کا دوبارہ تذکرہ فرما کر اول نبی سے آخری نبی مبعوث کر دئیے جانے کے متعلق بتا کرنبیوں کی آمد کے سلسلے کے اختتام پذیر ہونے کو واضح فرما دیا۔انبیاء علیہم السلام میں سے چار کے نام لے کر اور دوسرے تمام کے لئے ’’مِنَ ٱلنَّبِيِّــۦنَ‘‘سے میثاق لینے کا بتایا۔اور آقائے نامدار، رسول کریم محمد ﷺ سے  میثاق لینے کو الگ سے جار و مجرور ’’مِنكَ‘‘سے بیان فرمایا جس میں متصل ضمیر واحد مذکر حاضر  کے لئے ہے۔

اس کے بعد نوح علیہ السلام سے لئے گئے میثاق کا ذکر فرمایا۔جن انبیاء علیہم السلام کے اسمائے مبارک قرءان مجید میں بتائے گئے ہیں ان میں زمان میں اول ترین نوح علیہ السلام ہیں اگرچہ ان سے قبل بھی  ان کی قوم کی جانب رسول بھیجے گئے تھے مگر ان کے نام نہیں بتائے:

كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٛ ٱلْمُـرْسَلِيـنَ ١٠٥

تاریخ جان لو؛ نوح(علیہ السلام)کی قوم نے ان کی جانب بھیجے گئے رسولوں کوبرسر عام جھٹلایا تھا۔(الشعراء۔۱۰۵)

نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کے مابین زمانے میں جاری رہنے والے سلسلہ نبوت کا ذکر نہیں؛اور ان کے بعدبنی اسرائیل کی جانب مبعوث فرمائے نبیوں موسیٰ علیہ السلام ؛اور عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر فرمایا جو ان کی جانب آخری رسول تھے مگر نہ توبنی اسرائیل میں سے تھے اور نہ ہی بنی آدم  میں سے؛ بلکہ مثل آدم تھے۔ اس حوالے سے اپنے آپ میں یکتا کہ تخلیق کے حوالے سے ابن مریم صدیقہ تھے۔اس طرح اظہر من الشمس ہے کہ  انبیاء علیہم السلام جن سے میثاق لیا گیا تھاوہ تمام کے تمام تقریباً چودہ سو سال قبل  تک مبعوث ہو گئے تھے اور یہ سلسلہ اختتام پذیر ہو گیا ۔

آقائے نامدار،رسولِ کریم ﷺبھی میثاق نبیین کے پابند ہیں۔ان کے ذمہ ہے کہ اپنے سے قبل کے  تمام بھیجے گئے رسولوں اور کتابوں کے سچ اور حقیقت ہونے پر مہر تصدیق ثبت فرمائیں۔ دنیا جانتی بھی ہے اور قرءانِ مجید گواہ ہے کہ آقائے نامدار رسولِ کریم،خاتم النبیین ﷺ نے اپنے حلف کی پاسداری فرماتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام سے لے کراول ترین تک تمام نبیوں اور ان کو عطا کردہ کتاب و حکمت کی تصدیق فرمائی۔

وَلَمَّا جَآءَهُـمْ رَسُولٚ مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ مُصَدِّقٚ لِّمَا مَعَهُـمْ
نَبَذَ فَرِيقٚ مِّنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْـكِـتَٟبَ كِتَٟبَ ٱللَّهِ وَرَآءَ ظُهُورِهِـمْ كَأَنَّـهُـمْ لَا يَعْلَمُونَ ١٠١

 اور جوں ہی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایسے ر سول ان کے پاس پہنچ گئے جن کے متعلق انہیں تحریری طور پر پہلے سے مطلع اور ایمان لانے کا پابند کیا ہوا تھا،اور جن کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تصدیق و توثیق فرمانے والے ہیں  اس کی جو ان کے پاس نازل کردہ کلام اللہ ہے۔
توان لوگوں کے ایک فریق نے جنہیں قبل ازیں کتاب سے نوازا گیا تھا اللہ تعالیٰ کے تحریری کلام پر مشتمل کتاب کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا؛اس انداز میں جیسے گویا وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔(البقرۃ۔۱۰۱)

بَلْ جَآءَ بِٱلْحَقِّ وَصَدَّقَ ٱلْمُـرْسَلِيـنَ ٣٧

نہیں، انہیں شاعر کہنا لغو خیال آرائی ہے؛ حقیقت یہ ہے وہ بیان حقیقت(قرءان مجید)کے ساتھ تشریف لائے ہیں۔اور  انہوں(رسول کریم محمدﷺ)نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجے گئے تمام نبیوں  کی تصدیق کر دی ہے۔(الصافات۔۳۷)

اس آخری جملے کے فعل "صَدَّقَ"کے  فاعل رسول کریم محمٗد ﷺ ہیں۔فعل باب تفعیل سے   ہے اور اس کا فاعل "رَسُولٚ مُّصَدِّقٚ" کہلاتا  ہے جن کا ذکر میثاق نبیّین میں کیا گیا   تھا  کہ وہ اس کا اختتامی واقعہ (epilogue: final, concluding event and act)ہوگا۔یہ فعل اور فاعل اپنے مفعول کی تصدیق و توثیق کرتا ہے،ان کی سچائی اور حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ "ٱلْمُـرْسَلِيـنَ"فعل کا مفعول بہ اسم مفعول جمع مذکر معرفہ باللام ہے۔یہ باب افعال  سے اور مصدر "اِرْسَالٌ"ہے۔یہ اسم مفعول  آپ ﷺسے فوری قبل مبعوث فرمائے گئے نبیّ عیسیٰ علیہ السلام سے لے کر زمان و مکان میں  سب سے اول بھیجے گئے  نبیّ علیہ السلام کو اپنے احاطہ میں لیتا ہے۔

آقائے نامدار ، رسول کریم محمّدﷺکے بعد کسی رسول نے آنا نہیں اس لئے آپ ﷺنے کسی رسول پر ایمان لانا نہیں اور نہ ہی اس کی مدد کرنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آقائے نامدار ﷺنے اپنے ماننے والوں سے اس بات کا میثاق لیا بھی نہیں۔نبیوں کے حلف کا یہ حصہ ان پر نافذ العمل نہیں جیسے سب سے اول مبعوث فرمائے گئے نبیّ  پر اپنے سے پہلے کی تصدیق کے متعلق حلف کا وہ حصہ نافذ العمل نہ تھا۔تمام نبیوں پر سلام ہو جنہوں نے اپنے اپنے زمان و مکان میں ایمان لانے والوں کو اپنے بعد آنے والے رسول پر ایمان لانے اور عزت و تکریم سے مدد کرنے کا کہا اور میثاق لیا تھا۔

تصدیق،"صَدَّقَ"ہمیشہ ماضی کی ہوتی ہے۔ماضی کی تصدیق نہ ہو تو اس کی قانونی حیثیت اور حقیقت کچھ بھی نہیں۔آقائے نامدار ﷺنے اپنے سے قبل کے تمام نبیوں،رسولوں اور کتابوں کی تصدیق فرما کر ان پر ایمان لانے والوں کے اُس  زمان و مکان  کے  مؤمن ومسلم ہونے پر مہر تصدیق ثبت فرما دی اور ایمان لانے والوں کو حکم دیاکہ تسلیم کریں۔لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ مُحَمَّدٚ رَّسُولُ ٱللَّهِ  اور زمانہ قبل کے تمام رسولوں اور نازل کی گئی کتابوں پر ایمان لائیں۔ اور وہ بلا تفریق   آپ ﷺ سے قبل مبعوث فرمائے گئے          تمام  نبیوں  اور جو کچھ انہیں عنایت (معجزات)کیا گیا اور نازل فرمائے گئے پر ایمان لائے۔آپ ﷺ پر ایمان لانے والوں کا یہ کہنا ہے:

قُولُوٓا۟ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْنَا
وَمَآ أُنزِلَ إِلَـىٰٓ إِبْرَٟهِـۦمَ وَإِسْـمَٟعِيلَ وَإِسْحَٟقَ وَيَعْقُوبَ وَٱلۡأَسْبَاطِ
وَمَآ أُوتِـىَ مُوسَـىٰ وَعِيسَىٰ  وَمَآ أُوتِـىَ ٱلنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّـهِـمْ
لَا نُفَرِّقُ بَيْـنَ أَحَدٛ مِّنْـهُـمْ وَنَـحْنُ لَهُۥ مُسْلِمُونَ ١٣٦

تم لوگ(مومنین اہل کتاب سے) کہو ”ہم ا للہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں اور اُس (قرءان مجید)پر جو ہماری طرف مجتمع انداز میں نازل کیا گیاہے۔
اورہم اس پر ایمان لائے ہیں جو ابراہیم، اسماعیل،اسحاق،اور یعقوب (علیہم السلام)اور ان کی اولاد(بارہ قبیلے) کی طرف مجتمع انداز میں نازل کیا گیا تھا۔
اورہم اس پر ایمان لائے ہیں جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام)کو
عینی مشاہدہ  کے لئے ایسی شہادتیں(آیات )عنایت کی گئی تھیں    جو تمہارے تصور، تجربہ، سائنسی توجیح سے ماورائے اِدراک  ہوتے ہوئے اس حقیقت کی جانب  واضح رہنمائی کرنے والی تھیں کہ من جانب اللہ   سند اور برھان ہیں۔اور ہم اس پر ایمان لائے ہیں جو اُن کے رب کی جانب سے زمان و مکان میں مبعوث فرمائے گئے تمام نبیوں کو عینی مشاہدہ  کے لئے ایسی شہادتیں(آیات )عنایت کی گئی تھیں تھے   جوان لوگوں کے تصور،تجربہ،سائنسی توجیح سے ماورائے اِدراک ہوتے ہوئے اس حقیقت کی جانب  واضح رہنمائی کرنے والی تھیں کہ من جانب اللہ  سند اور برھان ہیں ۔
ہم اُن(نبیوں علیہم السلام)میں سے کسی ایک کو بھی ایمان میں الگ تھلگ نہیں کرتے۔اور ہم اُن (اللہ تعالیٰ)کیلئے ان کے بنائے آئین پر کاربند رہنے والے مسلمان ہیں‘‘۔(البقرۃ۔١٣٦)  

تمام مبعوث فرمائے گئے نبیوں کو  بھرپور جوان ہو جانے پر قوموں کی جانب  رسول بنایا گیا تھا۔رسول کریم ﷺ پر ایمان لانے والے ماضی کے تمام رسولوں پر اس انداز میں ایمان لائے کہ ان کے مجموع میں سے اہل کتاب کے برعکس کسی ایک کو بھی منہا نہیں کرتے:

ءَامَنَ ٱلرَّسُولُ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِۦ ۚ وَٱلْمُؤْمِنُونَۚ
كُلٌّ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَمَلَـٟٓئِكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ
لَا نُفَرِّقُ بَيْـنَ أَحَدٛ مِّن
رُّسُلِهِۦۚۚ
وَقَالُوا۟ سَـمِعْنَا وَأَطَعْنَاۖغُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ ٱلْمَصِيـرُ ٢٨٥

رسول کریم (محمد ﷺ)ایمان لائے اُس پرجو اُن پر مجتمع انداز میں نازل فرمایا گیاتھا ان کے رب کی جانب سے ان کے لئے مختص کردہ رحمت کے بطور(محذوف لفظ کے لئے حوالہ القصص۔۶۸ اور الدخان۔۶)۔اور اس وقت کے صاحبان ایمان اُن(رسول کریم ﷺ)کی جانب سے سنائے جانے پر اس(قرء ان مجید)پرایمان لائے۔
(اس بناء انہیں یہ امتیاز اولاً حاصل ہو گیا)ان(مومنوں)میں سے ہر ایک ایک اللہ تعالیٰ،اوران کے ملائکہ،اور ان کی جانب سے نازل کردہ تمام کتب،اور ان جناب کے تمام رسولوں پر ایمان لے آئے تھے۔
(انہوں نے اہل کتاب میں سے انہیں رسول نہ تسلیم کرنے والوں سے کہا)”ہم ان جناب کے رسولوں میں سے کسی ایک کو بھی علیحدہ نہیں کرتے“۔
اور انہوں نےکہا”ہم نے توجہ سے (قرء ان مجیدکو)سن لیا ہے اور صدق دل سے تسلیم کر لیا ہےاللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا”آپ جناب سے ہم ہر لمحہ درگزراور پردہ پوشی کے
درخواست گزار ہیں۔اے ہمارے رب!ہم جانتے ہیں کہ جواب دہی کے لئے آپ کے حضور پیش ہونا ہے"۔(البقرۃ۔٢٨٥)

میثاق نبیین کی جامعیت اور وسعت کا اندازہ لگائیں کہ آدم علیہ السلام سے لے کررسولِ کریم ﷺ کے زمان اور روز قیامت تک رسولِ کریم ﷺ پرایمان لانے والے سب ایک مسلم،متقین کی لڑی میں پرو دئیے گئے ہیں۔سب ایک دائرے میں آ گئے ہیں، سب کا سب رسولوں پر ایمان ہو گیا کہ اِس کے بغیر جنت میں داخلہ ممکن نہیں۔ا للہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

سَابِقُوٓا۟ إِلَـىٰ مَغْفِرَةٛ مِّن رَّبِّكُـمْ وَجَنَّةٛ عَـرْضُهَا كَعَـرْضِ ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡأَرْضِ
أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦۚ
ذَٟلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيـهِ مَن يَشَآءُۚ
وَٱللَّهُ ذُو ٱلْفَضْلِ ٱلْعَظِيـمِ ٢١

اور تم لوگ ایک دوسرے سے سبقت خواہ بنو اس درگزر،پردہ پوشی اور معافی کی جانب جس کا وعدہ اور ضمانت تمہارے رب کی جانب سے رسول کریم (ﷺ)نے تمہیں دی ہے۔اور جنت کی جانب۔اس کی وسعت آسمانوں اور زمین کی وسعت کے برابر ہے۔
اسے(جنت)ان لوگوں کے  لئےمعرض وجود میں لایا گیا ہے جو دل کی شاد سے اللہ تعالیٰ اور ان کے زمان و مکان میں بھیجے گئے تمام رسولوں پر ایمان لائے۔
یہ جنت کا عنایت کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، وہ جناب  اس فضل کو اس شخص کو عنایت کرتے ہیں جس کے متعلق یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس کا استحقاق ہے/جو اس کو پانے کی خواہش اور لگن  میں رہتا ہے۔
اور یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ عظیم ترین فضل کرنے والے ہیں۔ (سورۃ الحدید۔٢١)

اللہ تعالیٰ نے انسان  کو زمین پر بھیجتے وقت جس سلسلہ ہدایت کو وقتاً فوقتاً بھیجنے کا کہا تھا اس کی تکمیل اور اختتام  آقائے نامدار، رسول کریم محمد ﷺ پرقرءان مجید کے نزول کے ذریعے کر دیا گیا ہے۔اس میں اس تمام  کی تمام مختلف زمان میں بھیجی گئی ہدایت، کتب، وحی کی تصدیق کر کے رسول اور ہدایت بھیجنے کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا گیا ہے۔

وَءَامِنُوا۟ بِمَآ أَنزَلْتُ مُصَدِّقٙا لِّمَا مَعَكُـمْ وَلَا تَكُونُوٓا۟ أَوَّلَ كَافِـرِۭ بِهِۦۖ
وَلَا تَشْتَـرُوا۟ بِـٔ​َايَـٟتِى ثَمَنٙا قَلِيلٙا
وَإِيَّٟىَ فَٱتَّقُونِ٤١

اور ایمان لاؤ اُس(قرء ان)پر جو میں نے مجتمع انداز میں نازل کر دیا ہے۔یہ (قرء ان)اُس کی تصدیق و توثیق کرتا ہے جو اس کتاب میں درج ہے جوتمہارے پاس ہے۔اور تم لوگوں کو چاہئے کہ اِس (قرء ان)کا انکار کرنے والوں (اہل کتاب)میں اول نہ بنیں۔
اورتم لوگوں کو چاہئے کہ اپنے معمولی فائدے کیلئے میری آیات کے ذریعے کاروبارنہ کرو ۔اور صرف مجھ سے حفاظت ،نجات و بخشش کے طلبگار رہو،اور پھر مجھ سے اس کے حصول کے لئے تندہی سے محنت کرتے رہو۔ (البقرۃ۔۴۱)

اس مقام پر  بنی اسرائیل ؐ سے براہ راست خطاب میں قرءان مجید کوصرف اس کے بارے"مُصَدِّقٙا"(حالیہ)قرار دیا گیا ہے جو ماضی بعید میں ان پر نازل کیا گیا تھا۔اور پھر اس کو کتاب کا وصف"مُصَدِّقٚ"بتایا:

وَلَمَّا جَآءَهُـمْ كِتَٟبٚ مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ مُصَدِّقٚ لِّمَا مَعَهُـمْ
وَكَانُوا۟ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَـى ٱلَّذِينَ كَفَـرُوا۟
فَلَمَّا جَآءَهُـم مَّا عَـرَفُوا۟ كَفَـرُوا۟ بِهِۦۚ
فَلَعْنَةُ ٱللَّهِ عَلَـى ٱلْـكَـٟفِرِينَ٨٩

 اور جوں ہی وہ تحریری کلام/ کتاب (قرء ان)جسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے عربی زبان میں مرتب فرمایا گیاہے ان تک پہنچ گیا۔اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اُس کی تصدیق و توثیق کرتا ہے جواُن کے پاس موجود رہا ہے۔
اور اس سے قبل کے زمان میں وہ کافروں پر فیصلہ کن برتری اورغلبہ مانگتے رہتے تھے (جس کیلئے آخری نبی امی اور کتاب کے منتظر تھے)۔
مگر جوں ہی وہ ان کے پاس پہنچ گیا جس کو انہوں نے شناخت کر لیا مگرپھر بھی اُس (قرء ان)کو ماننے سے انکار کر دیا۔اِس دانستہ ہٹ دھرمی کے سبب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایسے لوگوں کومسترد اور پھٹکار زدہ قرار دیا جاتا ہے جو قرء ان کا انکار کرنے والے ہیں۔(البقرۃ۔۸۹)

مگر یہاں بھی قرءان مجید کا وصف "مُصَدِّقٚ"بنی اسرائیل ؐ  پر ماضی بعید میں تورات میں نازل کئے گئے سے متعلق ہے۔اس کو دہرایا گیا ہے   ایمان لانے کی دعوت  کے جواب میں اس دور کے یہودی عمائدین  کے لوگوں کے سامنے بیان کردہ استدلال کو بتاتے ہوئے:

وَإِذَا قِيلَ لَـهُـمْ ءَامِنُوا۟ بِمَآ  أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُوا۟ نُؤْمِنُ بِمَآ أُنزِلَ عَلَيْنَا
وَيَكْفُرونَ بِمَا وَرَآءَهُۥ
وَهُوَ ٱلْحَقُّ مُصَدِّقٙا لِّمَا مَعَهُـمْۗ

اور جب اُن سے کہا گیاتھا ”تم لوگ اِس پر ایمان لاؤ جو ا للہ تعالیٰ نے مجتمع انداز میں نازل فرما دیاہے“۔تو انہوں نے جواب میں کہا ”ہم اُس پر ایمان رکھتے ہیں جو مجتمع انداز میں ہم پرنازل کیا گیا تھا“ ۔
یعنی وہ (بن کہے)انکار کرتے ہیں اُس کا جو اُس کے علاوہ بعدازاں نازل کیا گیا(قرءانِ مجید)۔اور وہ (قرءانِ مجید)بیانِ حقیقت ہے۔وہ اُس کی تصدیق و توثیق کرتا ہے جو اُن کے پاس موجود رہا ہے۔

اِس جواب میں اُن کے ”سیانوں“کا ”سیانہ پن“چھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ قرءانِ مجید اُس کی بھی تصدیق کرتا ہے جو اُن پر پہلے نازل ہوا تھا۔ اپنے پر نازل شدہ کی تصدیق سے کھلم کھلا انکار کر کے عوام الناس کو مطمئن اور قرءان مجید سے دور رکھنا اُن کے لئے ممکن نہ رہتا۔اور اپنے پر نازل کردہ کی تصدیق کرنے والی بات کا کھلم کھلا اقرارعوام الناس کو اُس کی حقانیت کا یقین دلانے کے مترادف ہوتا اور اُس کی دوسری باتوں کو نہ ماننے کا کوئی قابل قبول جواز پیش کرنے سے عاجز ہوتے۔ اِن دونوں باتوں سے بچتے ہوئے اور کوئی خطرہ مول لئے بغیر اپنے جواب کے لئے الفاظ کا چناؤ اس طریقے سے کیا کہ بات گول مول،مبہم رہے یعنی ”اُس پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل ہوا تھا“اور اپنے منہ سے اُس نازل کردہ کے متعلق کچھ نہیں کہتے۔اور اِس بات کو واضح کر دیا گیا کہ  حقیقت میں بالواسطہ قرءانِ مجید کا انکار کرتے ہیں۔اُن کے جواب کی مناسبت ہی سے اُن سے سوال کیا گیا:

          قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنۢبِيَآءَ ٱللَّهِ مِن قَبْلُ  إِن كُنتُـم مُّؤْمِنِيـنَ٩١

اُن کے قول کے جواب میں اُن سے پوچھو”پھر تم کیوں بیتے دور کے ا للہ تعالیٰ کےچند نبیوں کی تذلیل و اہانت کرتے ہو؟وضاحت دو،اگر تم اُس پر ایمان رکھنے والے ہوجو تم پرپہلے نازل کیا گیا تھا؟(البقرۃ۔۹۱)

میثاق ِ نبیین سے غیر مبہم انداز میں واضح ہے کہ زمان کے ہر لمحے اور مکان کی ہر بستی میں پے در پے تمام کی تمام نوع انسان انبیاء کرام علیہم السلام سے لئے گئے اس میثاق کے بوجھ تلے ہے کہ اس نے تمام انسانوں کے لئے ا للہ کے رسول،آقائے نامدار، رحمت للعالمین ﷺ پر ایمان لانا ہے اور عزت و توقیر کے ساتھ ان کی مدد کرنی ہے۔ کوئی نیکی کا ارادہ کرے تو نیکی اس کے حق میں لکھ دی جاتی ہے۔اور جس نے اپنے آپ کو اس میثاق کا پابند کیا لیکن اس کی زندگی میں میثاق کو نباہنے کا موقع آیا نہیں تو کیا یہ متصور نہ ہو گا کہ وہ کائنات کے کلمے پرا یمان لایا تھا؟ میثاق نبیین کی رو سے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا"مُحَمَّدٚ رَّسُولُ ٱللَّهِ"پر ایمان ہے۔اس لئے بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:

وَءَامِنُوا۟ بِمَآ أَنزَلْتُ مُصَدِّقٙا لِّمَا مَعَكُـمْ وَلَا تَكُونُوٓا۟ أَوَّلَ كَافِـرِۭ بِهِۦۖ
وَلَا تَشْتَـرُوا۟ بِـٔ​َايَـٟتِى ثَمَنٙا قَلِيلٙا
 وَإِيَّٟىَ فَٱتَّقُونِ٤١

اور ایمان لاؤ اُس(قرء ان)پر جو میں نے مجتمع انداز میں نازل کر دیا ہے۔یہ (قرء ان)اُس کی تصدیق و توثیق کرتا ہے جو اس کتاب میں درج ہے جوتمہارے پاس ہے۔اور تم لوگوں کو چاہئے کہ اِس (قرء ان)کا انکار کرنے والوں (اہل کتاب)میں اول نہ بنیں۔
اورتم لوگوں کو چاہئے کہ اپنے معمولی فائدے کیلئے میری آیات کے ذریعے کاروبارنہ کرو ۔اور صرف مجھ سے حفاظت ،نجات و بخشش کے طلبگار رہو،اور پھر مجھ سے اس کے حصول کے لئے تندہی سے محنت کرتے رہو۔ (البقرۃ۔۴۱)

اہل کتاب کو قرءان مجید پر ایمان لانے کی دعوت  اور نہ لانے کی پاداش میں تنبیہ بھی انتہائی سخت ہے۔انہیں براہ راست مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:

يَـٰٓأَيُّـهَا ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْـكِـتَٟبَ ءَامِنُوا۟ بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقٙا لِّمَا مَعَكُـم
مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهٙا فَنَرُدَّهَا عَلَـىٰٓ أَدْبَارِهَآ
أَوْ نَلْعَنَـهُـمْ كَمَا لَعَنَّـآ أَصْحَـٟـبَ ٱلسَّبْتِۚ
وَكَانَ أَمْـرُ ٱللَّهِ مَفْعُولٙا ٤٧

اے وہ لوگوں جنہیں زمانہ قبل میں مخصوص کتاب کو عنایت کیا گیا تھا،توجہ سے سنو!۔دل کی شاد سے ایمان لاؤاس پر جو ہم نے بتدریج نازل کر دیا ہے(قرء ان مجید)۔یہ اُس کے لئےتصدیق و توثیق کرتا ہے جوتمہارے پاس موجود ہے۔
تعمیل کرو اس امکان سے قبل کہ ہم جناب چہروں کے نقوش مٹا دیں،نتیجے میں ہم جناب انہیں پلٹا دیں ان کی پچھلی جانب اصل مقام پر(تخلیق کے دوران چہرہ ابتداء میں پچھلی جانب ہوتا ہے)۔
یا ہم جناب انہیں دھتکار دیں جیسے ہم جناب نے اصحاب سبت کو دھتکار دیا تھا۔متنبہ رو!اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور امورایسے ہوتے ہیں جیسے سر انجام پا چکے۔(النساء۔۴۷)

مندرجہ بالا  آیات مبارکہ میں دو بار براہ راست اہل کتاب (یہود و نصاریٰ)سے  خطاب کر کے (مُصَدِّقٙا لِّمَا مَعَكُـمْ)اور دو بار ان کے حوالے سے (مُصَدِّقٚ لِّمَا مَعَهُـمْ/مُصَدِّقٙا لِّمَا مَعَهُـمْ)سے بتایا کہ قرءان مجید ان پر قبل زمانے  میں نازل کردہ کی تصدیق کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے  تصدیق و توثیق کو قرءان مجید کے لئے بطور ’’حال/Circumstantial adverb‘‘ اور بطور ’’صفت‘‘استعمال فرما کر یہ  واضح فرما دیا کہ یہ فائنل اور ہمیشہ کے لئے   ہدایت نامہ ہے۔

مگر دنیا میں صرف اہل کتاب(یہود و نصاریٰ)نہیں ہیں جن کی جانب اللہ تعالیٰ کے رسول آئے اور کتابوں کو نازل کیا گیا۔ان کے علاوہ انسان کی تاریخ میں جو کچھ مختلف اقوام کی جانب نازل کیا گیا تھا قرءان مجید نے ان کی فائنل تصدیق کر دی ہے۔ارشاد فرمایا:

قُلْ مَن كَانَ عَدُوّٙا لِّجِبْـرِيلَ فَإِنَّهُۥ نَزَّلَهُۥ عَلَـىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ
مُصَدِّقٙا لِّمَا بَيْـنَ يَدَيْهِ
وَهُدٙى وَبُشْـرَىٰ لِلْمُؤْمِنِيـنَ٩٧

آپ(ﷺ)اعلان فرمائیں’’جو کوئی عداوت پر مبنی شبہات کا اظہار کرتا ہے جبرائیل (علیہ السلام)کے لئے‘‘(وہ درحقیقت ایمان لانے سے انکاری ہے)۔کیونکہ یقیناً وہ ہی ہیں جنہوں نے اسے (قرء ان)بتدریج آپ کے قلب پر اتارا ہے،اللہ تعالیٰ کی موقع محل کی مناسبت سے پیشگی اجازت کے ساتھ۔
یہ بتدریج نازل کردہ(قرء ان)تصدیق کرنے/حقیقت قرار دینے والا ہے اس کو جو اِس سے قبل زمان و مکان میں (کتاب خاص ۔ام الکتاب میں سے)نازل کیا گیا تھا۔اوریہ ایمان والوں کے لئے رہنما اوراچھے انجام کی خوشخبری،ضمانت دیتا ہے۔(البقرۃ۔۹۷)

نَزَّلَ عَلَيْكَ ٱلْـكِـتَٟبَ بِٱلْحَقِّ مُصَدِّقٙا لِّمَا بَيْـنَ يَدَيْهِ
وَأَنزَلَ ٱلتَّوْرَىٰةَ وَٱلْإِنجِيلَ ٣

انہوں نے بتدریج مخصوص کتاب (قرء ان) کو آپ(ﷺ)پر نازل فرمایا ہے،مبنی بر بیان حقیقت اور موقع محل کی مناسبت سے۔یہ بتدریج نازل کردہ(قرء ان)تصدیق کرنے/حقیقت قرار دینے والا ہے اس کو جو اِس سے قبل زمان و مکان میں (کتاب خاص ۔ام الکتاب میں سے،حوالہ ۵:۴۸)نازل کیا گیا تھا۔
اور انہوں نے مجتمع انداز میں یکبارگی تورات اور انجیل کو نازل فرمایا تھا۔(ءال عمران۔۳)

ان دو آیات مبارکہ میں بتدریج نازل کردہ قرءان مجید کے ’’حال‘‘یعنی کردار کو زمان و مکان میں نازل کردہ تمام پربطور مصدق محیط قرار دیا۔کس کی تصدیق کرنے  کا یہ کردار ادا کر رہا ہے؛ اسے بتایا’’ لِّمَا ‘‘۔ جار و مجرور ’’اس کے لئے جو اسم موصول بیان کر رہا   ہے‘‘۔ اسم موصول کا صلہ موصول  محذوف ہے جو ’’بَيْـنَ يَدَيْهِ‘‘دو متصل مرکب اضافی سے ظاہر ہے۔یہ میثاق نبیین کے تحت تمام کے تمام نبیوں علیہم السلام کو ام الکتاب میں سے  انفرادی طور پر انہیں عنایت کردہ پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔یہ خود بھی ام الکتاب کااہم ترین اور فائز حصہ ہے اس پر جو اس سے قبل اُس میں سے وحی کیا گیا تھا:ارشاد فرمایا: 

وَٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ مِنَ ٱلْـكِـتَٟبِ هُوَ ٱلْحَقُّ مُصَدِّقٙا لِّمَا بَيْـنَ يَدَيْهِۗ
إِنَّ ٱللَّهَ بِعِبَادِهِۦ لَخَبِيـرُۢبَصِيـرٚ ٣١

اور ہم جناب نے مخصوص کتاب/ام الکتاب میں سے جس کوعربی زبان کا کلام بنا کر آپ کی جانب وحی کیا ہے(قرءان مجید)وہ بیان حقیقت ہے۔یہ (قرء ان)تصدیق کرنے/حقیقت قرار دینے والا ہے اس کو جو اِس سے قبل زمان و مکان میں (کتاب خاص ۔ام الکتاب میں سے،حوالہ ۵:۴۸)نازل کیا گیا تھا۔
متنبہ رہو؛یقیناً اللہ تعالیٰ ہر لمحے اپنے بندوں  کے متعلق باخبر ہیں،ہر لمحہ بندے ان کے زیرمشاہدہ ہیں۔(فاطر۔۳۱)

وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْـكِـتَٟبَ بِٱلْحَقِّ مُصَدِّقٙا لِّمَا بَيْـنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلْـكِـتَٟبِ

اور ہم جناب  نے آپ(ﷺ)کی جانب  مخصوص کتاب (قرءان مجید)کو مجتمع انداز میں مبنی بر بیان حقیقت اور موقع محل کی مناسبت سے  نازل فرمایا ہے۔یہ نازل کردہ مخصوص کتاب /قرء ان تصدیق کرنے/حقیقت قرار دینے والا ہے اس کو جو اِس سے قبل زمان و مکان میں کتاب خاص (ام الکتاب)میں سےنازل کیا گیا تھا۔(حوالہ المائدہ۔۴۸)

آقائے نامدار،رسول کریم محمد ﷺکی جانب وحی فرمائے گئے قرءان مجید کے متعلق  سورۃ فاطر کی آیت۔۳۱ میں بتایا کہ یہ ’’مِنَ ٱلْـكِـتَٟبِ‘‘یعنی مخصوص کتاب کےمندرجات میں سے ہے۔یہ جار و مجرور جملے میں ’’حال‘‘سے متعلق ہے۔ بلاغت کے اصول کے تحت اس کتاب کے متعلق  متکلم اور مخاطب دونوں کو معلوم ہے کہ کس  مخصوص کتاب کا حوالہ ہے۔اور اس موضوع پر دوسرے مقامات  پر بیان سے دوسروں کے لئے  واضح ہو جاتا ہے کہ ام الکتاب کا حوالہ ہے  جس میں سے حسب  وعدہ تمام انبیاء علیہم السلام کو وحی کیا گیا۔اگر ہم تصریف آیات کے انداز بیان کو یاد رکھیں تو کسی بھی مقام پر محذوف بات کو دوسرے مقام سے ازخود متعین کر سکتے ہیں۔قرءان مجید کے متعلق ہم نے پڑحا’’مُصَدِّقٙا لِّمَا بَيْـنَ يَدَيْه‘‘۔اور مکمل بات کو   المائدہ کی آیت ۔۴۸ میں ان الفاظ میں بیان فرمایا’’مُصَدِّقٙا لِّمَا بَيْـنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلْـكِـتَٟبِ‘‘۔قرءان مجید  خود’’مِنَ ٱلْـكِـتَٟبِ ‘‘ہےاور جس تمام کی تصدیق کرتا ہے وہ بھی ’’مِنَ ٱلْـكِـتَٟبِ‘‘ہے۔ مگر دونوں میں فرق بتایا:

وَمُهَيْمِنٙا عَلَيْهِۖ

اوراس(قرءان)کی حیثیت اس پر(جو قبل ازیں کتابوں میں نازل ہوا)اہم اور فائز ہے۔(حوالہ المائدہ۔۴۸)

اسم فاعل’’مُهَيْمِنٙا ‘‘اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ میں سے ہے اور قرءان مجید میں صرف دو بار استعمال ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ میں ابدیت کا عنصر ہے۔ اور قرءان مجید کا ’’حال‘‘بیان کرتا  یہ اسم فاعل  کس پر ہے؟بتایا ’’عَلَيْهِ‘‘۔اس جار و مجرور میں حرف جر کے معنی کسی شئے پر،اس کے اوپر ہونا ہے۔اس کی متصل   واحد مذکر غائب کی ضمیرماضی میں نازل/وحی کردہ کو راجع ہے۔اس کا مادہ ’’ھ۔ی۔م۔ن‘‘اور اس لفظ کے معنی جناب    ابن فارس نے ’’الشاهد‘‘گواہ، شہادت دینے والا، تصدیق کرنے والالکھے ہیں ۔اور صاحب محیط نے ’’حافِظاً‘‘۔عربی۔انگلش ڈکشنری المورید میں اس کے معنیascendancy, supremacy, preponderance لکھے ملتے ہیں جن کا اردو میں مطلب  زیادہ اہم، بلند،بالا دست ہیں۔یہ معنی اور مفہوم ایک دوسرے مقام سے واضح ہیں :

وَإِنَّهُۥ فِـىٓ أُمِّ ٱلْـكِـتَٟبِ لَدَيْنَا لَعَلِـىٌّ حَكِيـمٌ ٤

اور اِس(عربی میں تالیف و تدوین دیا متن بعنوان قرءان)کے متعلق حقیقت جان لو،بلاشبہ یہ ہمیشہ سے ام الکتاب کے مندرجات میں اعلی ترین مقام رکھتا ہے؛وہ(ام الکتاب)ہمارے پاس محفوظ ہے۔یہ(قرءان)حکمت و دانائی اور پنہاں حقیقتوں کو سموئے ہوئے ہے۔(الزخرف۔۴)

اللہ تعالیٰ نے نبیوں علیہم السلام کا کردار بشیر اور نذیر بتایا ہے۔اور آقائے نامدار،رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:

يَـٰٓأَيُّـهَا ٱلنَّبِىُّ إِنَّـآ أَرْسَلْنَٟكَ شَٟهِدٙا وَمُبَشِّـرٙا وَنَذِيرٙا ٤٥
وَدَاعِيٙا إِلَـى ٱللَّهِ بِإِذْنِهِٚۦ
وَسِرَاجٙا مُّنِيـرٙا٤٦

اے ہمارے اپنےلئے مختص کردہ اور کائنات کے لئےعالی شرف و عظمت قرار پائے بندے(محمد ﷺ)حقیقت یہ ہے کہ ہم جناب نے آپ(ﷺ)کوزمین پر بھیجا ہے بحثیت گواہ/تصدیق کنندہ؛ اورخوش کن نتائج کی خبر اور ضمانت دینے والے،اور زمان و مکان میں کفر و نافرمانیوں کے خوفناک انجام سے پیشگی  خبردار اور انتباہ کرنے  کا فریضہ انجام دینے کے لئے۔(سورۃ الاحزاب۔۴۵ ۔اور الفتح۔۸)
اوران کی اجازت سے اللہ تعالیٰ کی جانب آنے کی دعوت دینے والے کی حیثیت سے۔اور آپ(ﷺ)کو بھیجا ہے ایک ایسے  یکتادرخشاں حسن و جمال کے پیکر کے طور جو نور کو منعکس کر دینے والا ہے ۔( الاحزاب۔۴۶)

اللہ تعالیٰ نے  میثاق کے نکات بتا دینے پر نبیوں علیہم السلام سے پوچھا تھا:

قَالَ ءَأَقْرَرْتُـمْ وَأَخَذْتُـمْ عَلَـىٰ ذَٟلـِكُـمْ إِصْرِىۖ
قَالُوٓا۟ أَقْرَرْنَا قَالَ فَٱشْهَدُوا۟ وَأَنَا۟ مَعَكُـم مِّنَ ٱلشَّٟهِدِينَ ۚ

انہوں (اللہ تعالیٰ)نے پوچھا"کیا آپ لوگوں نے   اس میثاق کابخوشی اقرار کر لیا ہے۔اورمیرے اس تفویض  کردہ ذمہ داری کے بوجھ  کو اٹھانے اور  نباہنے کے لئے سمجھ کر  اپنا لیا ہے؟
انہوں (نبیوں)نے کہا ”ہم
نے بخوشی اس کا اقرار کیا ہے(اس لئے   لوگوں  کو پہنچا کر لازمی نباہیں گے")۔
انہوں (ا للہ تعالیٰ)نے کہا’تم لوگ گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ایک ہوں۔“(حوالہ آلِ عمران۔ ۸۱)

میثاق ایک فریق کی جانب سے عنایت کا وعدہ اور دوسرے فریق  کے لئے ذمہ داری پر مشتمل ہوتا ہے۔ذمہ داری ایک بوجھ ہے جس کوانجام دے کر اتارنا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے "إِصْرِى"یعنی "میرے  تفویض  کردہ ذمہ داری کا بوجھ"نبیوں نے بخوشی    اپنے اوپر لے کر اسے اپنے زمان و مکان کے  لوگوں پر منتقل کر دیا تھا ان سے میثاق لے کر اسے "إِصْرَهُـمْ"ان کی ذمہ داری کا بوجھ"بنا دیا تھا۔یہ بوجھ   رسول کریم اتارتے ہیں جن پر ایمان لانا  ان کےمیثاق کی شق ہے:۔ 

ٱلَّذِينَ يَتَّبِعُونَ ٱلرَّسُولَ ٱلنَّبِىَّ ٱلۡءاُمِّىَّ
ٱلَّذِى يَجِدُونَهُۥ مَكْتُوبٙا عِندَهُـمْ فِـى ٱلتَّوْرَىٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ
يَأْمُـرُهُـم بِٱلْمَعْـرُوفِ وَيَنْـهَىٰـهُـمْ عَنِ ٱلْمُنكَرِ
وَيُحِلُّ لَـهُـمُ ٱلطَّيِّبَٟتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْـهِـمُ ٱلْخَبَـٟٓئِثَ
وَيَضَعُ عَنْـهُـمْ إِصْرَهُـمْ وَٱلۡأَغْلَٟلَ ٱلَّتِـى كَانَتْ عَلَيْـهِـمْۚ

(میں اپنی رحمت اہل کتاب کے ان لوگوں کیلئے بھی لازم کر دونگا)وہ اہل کتاب جو رسولِ کریم   محمَد (ﷺ) کی خلوص سے اتباع کرتے ہیں ، فرائض رسالت تفویض کئے جانے سے قبل  میثاق نبیین کے  وہ نبیّ ہیں  جن پر سلسلہ آمدِ انبیاء اختتام پذیر ہو گیا،ان کی بشری  نسبت امَیَِ  ہے(وہ جو جد امجد  اسماعیل علیہ السلام کے بعد کتاب اللہ سے نہیں نوازے گئے تھے) ۔
یہ رسول کریم وہ ہیں جنہیں  وہ اپنے پاس  تحریری طور پر لکھا موجود پاتے ہیں،الواح تورات میں اور  کتاب اللہ بعنوان انجیل میں۔
وہ(رسول کریم)انہیں(اہل کتاب)عقل و دانائی کے پیمانے پر معروف باتوں کی پیروی کی تلقین کرتے ہیں،اور انہیں عقل و فہم سے ماوراء مبہم  نظریات و خیالات رکھنے سے منع فرماتے ہیں۔
اوروہ(رسول کریم)ان کے لئے انفرادی طور پرمرغوب اور صحت افزا رزق کو حلال قرار دیتے ہیں،اور ہر طرح کے خبائث/لغو اور ناکارہ امور کو حرام قرار دیتے ہیں۔
اور وہ(رسول کریم)ان کے بوجھِ میثاق کو اتار دیتے ہیں،اور ان بےسروپا روایتوں اوران من گھڑت باتوں کے طوقوں سے انہیں آزاد کرتے ہیں جو ان کے عقل و فہم پر ڈال دئیے گئے تھے۔(حوالہ الاعراف۔١٥٧)

میثاق نبیین سے  انسان  پر  آقائے نامدار،رسول کریم  محمٗد ﷺپر ایمان  لانے کےذمہ داری  کونباہنے  پر آپ ﷺ نہ  صرف ان ایمان لانے والوں کے بوجھ کو(يَضَعُ)اتارتے رہتے ہیں بلکہ ان طوقوں کو بھی ان سے دور کر دیتے ہیں جنہوں نے ان کی عقل و فہم و دانائی کو مفلوج کیا ہوا تھا ۔اللہ تعالیٰ نےتصدیق و توثیق کو قرءان مجید کے لئے(مُصَدِّقٙا لِّمَا مَعَكُـمْ)بطور ’’حال/Circumstantial adverb‘‘استعمال فرما کر یہ واضح فرما دیا کہ زمان و مکان   میں  ان پر نازل کردہ میں سے موجودمبنی بر حقیقت مواد کی تصدیق کرتا رہے گا جس کے ذریعے انہیں اپنے عمائدین کی باطل اختراعات، روایتوں/حدیثوں کو رد کرنے میں آسانی ہو گی جو اصل حقیقت کو مسخ کرنے کے لئے سرکردہ لوگ پھیلاتے اور زبان زد عام کرتے ہیں۔فلاح پانے والوں کو متمیز فرمایا:

فَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ بِهِۦ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَـرُوهُ وَٱتَّبَعُوا۟ ٱلنُّورَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ مَعَهُۥٓۙ
أُو۟لَـٟٓئِكَ هُـمُ ٱلْمُفْلِحُونَ ١٥٧

اس لئے وہ جو ان(ﷺ)پر ایمان لائے،ان کی عظمت،توقیر و ادب کو تسلیم کیا اور ان کی مدد کی۔ اور اس "منفردنور"(قرءان مجید) کی انہوں نے اس انداز میں پیروی کی کہ اس کے اور ان کے درمیان کچھ بھی حائل نہیں ہونے دیا، جس کے متعلق  خاص  اطلاع یہ ہے کہ  ان(ﷺ)کی معیت   میں یکبارگی مجتمع انداز میں اوپر سے نیچے بھیج دیا گیا تھا۔
اور یہی ہیں وہ لوگ جودرحقیقت دائمی کامیاب اور سرخرو ہونے کے لئے کوشاں ہیں۔(الاعراف۔
١٥٧)


آقائے نامدار، رسول کریم  محمَد ﷺاورعظیم قرءان کا منفرد اعزاز ان کی عالمی و دائمی حیثیت ہے  جو نوع انسان کو ایک لوپ/بندھن میں کرتا ہے۔

عربی زبان میں جب لفظ ’’کتاب‘‘کے شروع میں لام معرفہ ’’ٱلْـ‘‘لگاتے ہیں تو وہ ایک مخصوص کتاب کا حوالہ بن جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے نبیوں ، جنہیں  بھر پور جوان ہو جانے پررسالت کے فرائض سونپے گئے  ان کے لئے مخصوص کردہ کتاب  کو بھی نازل فرمایا۔ہر ایک نازل کردہ کتاب  ایک جامع ترین  کتاب کا جزو  تھا:

أَ لَمْ تَرَ إِلَـى ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ نَصِيبٙا مِّنَ ٱلْـكِـتَٟبِ
يُدْعَوْنَ إِلَـىٰ كِتَٟبِ ٱللَّهِ لِيَحْكُـمَ بَيْنَـهُـمْ
ثُـمَّ يَتَوَلَّـىٰ فَرِيقٚ مِّنْـهُـمْ وَهُـم مُّعْـرِضُونَ ٢٣

کیا آپ نے ان لوگوں کے رویئے پر غور کیا ہے جنہیں ام الکتاب میں سے ان کے لئے مخصوص اور متعین کردہ جزو پہنچا دیا گیا تھا۔(یہ جملہ دو اور مقام پر بھی ہے النساء۔۴۴ اور ۵۱)
انہیں ان کے مابین   اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لئے کتاب اللہ (قرءان مجید)کی جانب آنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
بعد ازاں کتاب اللہ کے مندرجات کو سمجھ لینے پر ان میں سے  صاحبان علم کی شناخت رکھنے والا طبقہ بے پرواہی سے پلٹ جاتا ہے،اس  ذہنی کیفیت میں کہ وہ دانستہ اعراض برتنے والے ہیں۔(ءال عمران۔۲۳)

دلچسپ اعداد و شمار ہیں،قرءان مجید سے قبل  تین نازل کردہ کتابوں کے نام اس میں درج ہیں اور تین ہی مرتبہ"نَصِيبٙا مِّنَ ٱلْـكِـتَٟبِ"ہے۔اس طرح اظہر من الشمس ہے کہ تمام زمان و مکان میں نبوت اور رسالت کا جزو لاینفک "کتاب"ہے اور کوئی دور ایسا نہیں جس  میں کتاب موجود نہ رہی ہو:

لِـكُلِّ أَجَلٛ كِتَابٚ 

ایک کتاب کوہر ایک دور میں لوگوں کی رہنمائی کے لئے ہر ایک رسول کے ساتھ نازل کیا گیا تھا۔(حوالہ الرعد۔۳۰)

يَـمْحُوا۟ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُۖ وَعِندَهُۥٓ أُمُّ ٱلْـكِـتَٟبِ ٣٩

اللہ تعالیٰ جس کے متعلق فیصلہ کرتے ہیں اسے محو فرما دیتے ہیں؛اورجس(کتاب/متن)کے متعلق چاہتے ہیں اسے دوام دے دیتے ہیں۔اور ام الکتاب(تمام تخلیق کے متعلق منبع علم)ان  جناب کے پاس محفوظ اور پوشیدہ حالت میں موجود ہے۔(الرعد۔۳۹)

وَمَآ أَهْلَـكْنَا مِن قَرْيَةٛ إِلَّا وَلَـهَا كِتَٟبٚ مَّعْلُومٚ ٤

  مطلع رہو؛ہم جناب نے بستیوں میں کسی ایک بستی کے لوگوں کو  بھی صفحہ ہستی سے نہیں مٹایاماسوائے ان حالات میں کہ ایک  معلوم کتاب  کوان کی ہدایت کے لئے نازل کیا ہوا تھا۔(الحجر۔۴)

جملہ فعلیہ’’يُثْبِتُ‘‘فعل مضارع مرفوع، واحد مذکر غائب کا ماخذ ’’ث۔ب۔ت‘‘ہے جس میں جناب ابن فارس کے مطابق سمویا تصور"دَوامُ الشيء"کا ہے۔ اور چونکہ فعل باب افعال(Form-IV)سے ہے تو یہ دوام اس کتاب کی صفت /کیفیت بنا دیا گیا ہے ۔ اس مقام پر چونکہ اُس کتاب کا حوالہ نہیں دیا  تواس کے متعلق جانکاری حاصل کرنے کے لئے دوسرے مقامات پر دیکھنا ہو گا کہ ابد تک کے لئے آخری ہدایت کس کتاب میں درج ہے۔ارشاد فرمایا:

وَهَـٟذَا كِتَٟبٌ أَنزَلْنَٟهُ مُبَارَكٚ مُّصَدِّقُ ٱلَّذِى بَيْـنَ يَدَيْهِ
وَلِتُنذِرَ أُمَّ ٱلْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَـهَا
وَٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِٱلۡۡۡءَا خِـرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِۦ ۖوَهُـمْ عَلَـىٰ صَلَاتِـهِـمْ يُحَافِظُونَ ٩٢

اس کتاب(قرءان مجید)کے متعلق حقیقت جان لو؛ہم جناب نے اسے مجتمع انداز میں نازل فرمایا/لوگوں تک پہنچایا ہے۔اس کی یکتا خصوصیت  یہ ہے کہ اس کو دوام دیا گیا ہے۔  اس کی خصوصیت یہ ہے کہ  یہ اس سے قبل زمان و مکان میں   تمام نازل کردہ  ہدایت /کلام اللہ پر مشتمل   وحی  کی تصدیق و توثیق کرتا ہے۔
 اور اس کو دوام دینے کا مقصد یہ ہے کہ آپ(ﷺ)ام القریٰ(مکہ مکرمہ)کے لوگوں اور اس کو جو اس کے تمام اطراف میں رہائش پذیر ہے،انہیں
کفر و نافرمانیوں کے نتائج و انجام
سے پیشگی خبردارفرما تے رہیں۔
اور جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو آخرت کو مانتے ہیں وہ اس (قرءان مجید)پر صدق دل سے ایمان لاتے ہیں۔اور یہ لوگ اپنی صلوٰۃ(مقررہ اوقات پر بااظہار بندگی)کی ادائیگی کے لئے چوکنا اور مستعد رہتے ہیں۔(سورۃ الانعام۔۹۲) 

اللہ تعالیٰ نے زمان و مکان میں ام الکتاب میں سے   نازل کردہ کتابوں میں ہمارے ہاتھوں میں موجوداس کتاب قرءان عظیم کوصفت’’مُبَارَكٚ‘‘سے متصف قرار دیا ہے۔انگریزی کے اولین مترجمین نے اس کا ترجمہ "blessed"کیا اور اردو مترجمین نے اس کا مقابل لفظ’’بابرکت، برکت والی‘‘استعمال کیا۔اس کا مادہ ’’ب۔ر۔ک‘‘ہے۔اس میں سمویا بنیادی اور لازمی تصور اور عنصر عربی زبان کی معتبر ترین لغات ابن فارس(مقاييس اللغة ابن فارس (٣٩٥ هـ))کے مطابق ’’ثَبَاتُ الشَّيْءِ‘‘ہے اور لسان العرب(ابن منظور ٧١١ هـ)کے مطابق ’’النَّماء وَالزِّيَادَةُ.‘‘ہے۔اس طرح اس میں دوام،پھلنے،پھولنے، لوگوں کے لئے نمایاں اور بدستور مشہور ہوتے رہنے کےمعنی لازمی عنصر ہیں۔اس کے معنی اس ثبات/دوام سے ہے جس میں نموبھی شامل ہو؛ یعنی ایک ایسی چیزجو اپنے مقام پر مستحکم بھی ہواور اس کے ساتھ ساتھ بڑھ بھی رہی ہو۔لہٰذا اس میں استحکام اور کثرت،ثبات اور نشوونما دونوں شامل ہوتے ہیں۔نواب صدیق حسن خان نے لکھا ہے کہ عربی زبان کے جن  مادوں/ماخذ میں حرف ’’ب‘‘ اور ’’ر‘‘اکٹھے آئیں ان میں’’ظاہر ہونے‘‘ کا مفہوم مضمر ہوتا ہے۔ لہٰذا’’مُبَارَكٚ‘‘میں ثبات، دوام، استحکام،کثرت،نشوونما،اور ظہور و نمود کے تمام پہلو سمٹے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سوائے قرءان عظیم کے،  بشمول ام الکتاب میں سے زمانہ قبل میں نازل کردہ کتابوں ،کسی کتاب کو’’ مُبَارَكٚ‘‘قرار نہیں دیا۔دوسرے مقامات پر  تکرار سے  اور بلاغت کے اصول استعمال کرتے ہوئے یہ نکتہ ذہن نشین کرایا گیا ہے:

وَهَـٟذَا كِتَٟبٌ أَنزَلْنَـٟهُ مُبَارَكٚ  فَٱتَّبِعُوهُ وَٱتَّقُوا۟ لَعَلَّـكُـمْ تُرْحَـمُونَ ١٥٥

اس کتاب(قرءان مجید)کے متعلق حقیقت جان لو؛ہم جناب نے اسے مجتمع انداز میں نازل فرمایا/لوگوں تک پہنچایا ہے۔اس کی یکتا خصوصیت  یہ ہے کہ اس کو دوام دیا گیا ہے۔اس لئے زمان و مکان میں تمام افعال و اعمال کے لئےاس کی صدق دل سے اس انداز میں اتباع کرو کہ اس کے مندرجات اور تمہارے درمیان تیسرا حائل نہ ہو۔اور انتہائی تندہی سے  حدود و قیود کی پابندی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے پناہ کے خواستگار رہو۔یہ اس لئے ضروری ہے تا کہ تم لوگ رحم کے مستحق بن جاؤ۔(الانعام۔۱۵۵)

كِتَٟبٌ أَنزَلْنَٟهُ إِلَيْكَ مُبَٟرَكٚ لِّيَدَّبَّرُوٓا۟ ءَايَٟتِهِۦ وَلِيَتَذَكَّرَ أُو۟لُوا۟ ٱلۡأَلْبَٟبِ ٢٩

اس کتاب(قرءان عظیم)کے متعلق  حقیقت یہ ہے؛ ہم جناب نے مجتمع انداز میں  آپ (ﷺ) کی جانب اس کو نازل فرمایاہے؛اس کی یکتا خصوصیت  یہ ہے کہ اس کو دوام دیا گیا ہے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ (متقین،حدود و قیود میں اپنے آپ کو محفوظ کرنے والے)اس کی آیات /مندرجات میں ترتیب و تسلسل سے از خود غوروفکر/تدبر کرنے کی عادت کو  اپنائیں ۔اور یہ کہ صاحبان  دانش و بینائی قلب جو روایات،تعصبات،جذبات،خواہشات،مفادات سے بلند ہو کر کتاب کو سنتے اور پڑھتے ہیں ازخود اس سے نصیحت لے سکیں اور دوسروں سے تذکرہ کریں۔(سورۃ صٓ۔۲۹)

اللہ تعالیٰ نے قرءان عظیم کو ایک نام/خطاب                ’’ذِكْرٚ‘‘دیا ہے۔

وَهَـٰذَا ذِكْرٚ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَٟهُۚ  أَفَأَنتُـمْ لَهُۥ مُنكِرُونَ ٥٠

اور یہ(قرءان مجید)مکمل سرگزشت ِتخلیق،منبع رشد و ہدایت ہے۔اس کی یکتا خصوصیت  یہ ہے کہ اس کو دوام دیا گیا ہے۔ہم جناب نے اس کومجتمع انداز میں نازل/لوگوں تک پہنچایا ہے۔کیا تم لوگ باوجود اپنے آپ کو اس میں مذکور پا کراس کے لئے ناواقف  اورمنکر بن رہے ہو؟( الانبیاء۔۵۰)

علم و حقیقت اور ہدایت کولوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ کتاب ہے۔کتاب کے مقصد کے حصول کی کا میابی کا دارومدار اس کی زمان و مکاں میں پہنچ (portability)اور حفاظت و دوام (permanence)پر منحصر ہے۔ اور کتابمُّبَارَكٌیعنی ثبات اور دوام کی حامل قرار پانے کی اس وقت مستحق ہے جب گردش پذیر زمان و مکاں کے تمام مکینوں تک اصل حالت میں پہنچ سکے۔ اور کتاب اصل حالت  (intellectual property)میں زمان و مکان کے مکینوں تک صرف اس صورت میں پہنچ سکتی ہے کہ  اس کے قرطاس پر تحریر کیا ہوا کلام  زمان کی گزر گاہ میں محفوظ رہے کیونکہ کاغذ اور گتے کو دوام حاصل نہیں۔اورکتاب میں تحریر کئے اپنے کلام کی حفاظت صرف وہ کر سکتا ہے جو زمان اور ہرمکان میں ہر لمحہ موجود ہو۔

اللہ تعالیٰ نے قرءان مجید کو دوام اور لمحہ آخر تک ابدیت دیتے  ہوئے اس کے متن کی محفوظیت کی ذمہ داری خود اپنے ذمہ قرار دی ہے:

إِنَّا نَـحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٟفِظُونَ ٩

یہ حقیقت ہے کہ ہم جناب ہیں؛ہم نے وقفے وقفے سے سرگزشت تخلیق اور سلسلہ رشدوہدایت(قرءان مجید)کو نازل کیا ہے۔اور یہ حقیقت ہے،ہم جناب زمان و مکان میں ہر لمحہ بلا شبہ اس کے متن کے لئے خودحفاظت کا ذمہ لئے ہوئے ہیں۔(الحجر۔۹)

ہم   زمین پر اپنی آمد سے لے کر گزرے زمان و مکان کا احاطہ کرتے ہوئے آج کے دور میں پہنچ گئے۔ہمیں معلوم ہو گیا کہ قرءان مجید اب یوم قیامت تک کے لئے سرچشمہ ہدایت ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے آقائے نامدار، رسول کریم محمّد ﷺکی رسالت کو انتہائی معنی خیز بلیغ انداز میں ابدی قرار دے دیا ہے:

وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ فِيكُـمْ رَسُولَ ٱللَّهِۚ

اور  تم لوگ  اس حقیقت سے باعلم رہو کہ اللہ تعالیٰ کے رسول(محمد ﷺ)تم لوگوں کے مابین بحثیت نذیر/متنبہ کرنے والے اور معلم موجود ہیں۔(محذوف خبر کے لئے حوالہ 6:19)۔[حوالہ الحجرات۔۷]

یہ انتہائی تاکیدی  جملہ ہے۔فعل امرجمع مذکر حاضر   علم سے بہرہ مند ہونے کا حکم ہے۔اور بعد والا جملہ  مصدر کے معنی میں مفعول کے طور ہے۔علم محض زبان سے معلومات کو کہنے کا نام نہیں بلکہ  اس کے مفعول کو پہچاننے اور جاننے اور یقین کی کیفیت میں ہونا ہے۔قرءانِ مجید ہمارے درمیان ہے تو آقائے نامدار ﷺ ہمارے درمیان ہیں۔اور یہ احساس تو تبھی ہو سکتا ہے اگر ہم”زندہ“ہیں کیونکہ مردوں کوتو وہ سنا ہی نہیں سکتے۔اور اگر ہم زندہ ہیں تو ہمارے زندہ ہونے کا ثبوت روایات اور تاریخ کی کھوج نہیں بلکہ آقائے نامدار ﷺ کے بیانِ حقیقت کو سننے اور اس کی اتباع ہے کیونکہ آپ ﷺکی حیات کا ہر لمحہ اس بیانِ حقیقت کی اتباع کی کامل تاریخ ہے۔اتباع میں حرکت ہے۔اتباع عمل کی ہے۔ عمل یاداشت میں محفوظ علم کا مرہون منت ہے اس لئے انسان کے باطن کا عیاں ہونا اس کی یاداشتوں میں محفوظ علم کا مرہون منت ہے۔ اور آقائے نامدار ﷺ کے قلب و ذہن میں محفوظ علم صرف قرءانِ مجید ہے ۔ آپ ﷺ کا ذہن اور قلب مبارک  کائنات کے لئے نور کی آماجگاہ ہے۔میں کائنات کے ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جن کے پاس آقائے نامدار ﷺ موجود ہیں کہ آپ ﷺ کا قلب و ذہن ایک کھلی ہوئی کتاب میں میرے پاس موجود ہے۔ قریہ قریہ مجھے گھومنے کی ضرورت نہیں۔ جب چاہوں آپ ﷺ کے قلب و ذہن میں جھانک کر آپ ﷺ سے نورِ ہدایت حاصل کر لوں۔ آقائے نامدار،رسولِ کریم ﷺ پر درود وسلام ہے ہر لمحہ صبح و شام۔

قرءان مجید اللہ تعالیٰ کی  ٱلْءَايَٟتُ پر مشتمل ہے جس کی اتباع آقائے نامدار رسولِ کریم ﷺکرتے ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں قرءان مجید آقائے نامدار، رسولِ کریم ﷺکی ذات اقدس میں مجسم ہوتا ہے اور تحریر اور حیات باہم ایک محسوس ہوتے ہیں۔ اورعلم  آیات کا ہوتا ہے۔ہر آیت ظاہر اور مشہود ہے جو قابلِ تصدیق ہوتا ہے۔
ہر انسان کا  ظاہر ہے اور ایک باطن۔انسان کا باطن اُس کے روبرو اپنے زمان و مکان میں موجود دوسرے لوگوں کیلئے بھی پنہاں ہوتا ہے۔
ا نسان کے باطن کا
دوسروں کو ادراک صرف اور صرف اس سے حاصل ہو سکتا ہے جس کی وہ ا نسان اتباع کرتا ہے۔ اور اگر کوئی صرف ایک بات کی اتباع کرے تو اُس انسان کاظاہر اور باطن ایک ہو جاتا ہے۔انسان کاجسد اس کا تعارف ہے لیکن اس کی حقیقت، شخصیت،ہستی (personality,person)کی پہچان صرف اس کا باطن ہے۔ انسان  کا جسد شئے سے ہے جس نے مرنا،میت ہوکر لوگوں کیلئے ظاہر نہیں رہنا کیونکہ اسے قبر میں دفنا دیا جانا ہے۔لیکن جس ا نسان کاباطن ظاہر ہو چکا ہو اور وہ لوگوں کے پاس تحریری شکل میں موجود ہو تو ایسی شخصیت زمان و مکان کی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہو سکتی کیونکہ حقیقت صرف وہ ہے جو باطن ہے اور جب کسی کا باطن میری نظروں میں ہے تو اس کے جسد کی ضرورت مجھے نہیں رہتی۔ آقائے نامدار ﷺ کا باطن،پنہاں انسان کیلئے ظاہر اور عیاں ہے ۔  اور جس ہستی کا باطن ظاہر ہو اس کے متعلق جاننے اور علم میں تشنگی کا عنصر قطعی طور پر موجود نہیں ہوتا۔وہ ظاہر سے بھی زیادہ ظاہر ہوتا ہے۔ وہ چاروں جہتوں(space-time; four dimensions)میں ہے۔

زمان و مکان  میں  "نذیر"ہمیشہ موجود رہے۔

إِنَّـآ أَرْسَلْنَـٟكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيـرٙا وَنَذِيـرٙاۚ
وَإِن مِّنْ أُمَّةٛ إِلَّا خَلَا فِيـهَا نَذِيرٚ ٢٤

(اے رسولِ کریم) ہم جناب نے آپ (ﷺ) کو بیانِ حقیقت(قرءانِ مجید) کے ساتھ اور موقع کی مناسبت سے تمام انسانوں کی جانب بھیجا ہے۔ آپ کی حیثیت زمان و مکان میں خوش کن نتائج کی خبر، ضامن اورکفر و نافرمانیوں کے نتائج و انجام سے پیشگی خبردار کرنے والے کی ہے۔(یہ جملہ البقرۃ۔119 میں بھی ہے)
اورکوئی بھی ایسی  امت نہ تھی جسے ہم نے نیست و نابود کیا ہو مگر یہ کہ ایک نتایج و انجام سے متنبہ کرنے والا ان میں گزرا تھا۔

زمانہ قبل میں یہ "نذیر"فقط ایک "امت"کے لئے تھے،مگر آقائے نامدار،رسول کریم ﷺ کے مبعوث فرمائے جانے پر تمام دنیا کو ایک گلوب/بستی کا درجہ اور مقام دے دیا گیا ہے۔اس لئے آپ ﷺ کی بطور "نذیر"حیثیت عالمی سطح پر دائمی ہے۔ارشاد فرمایا:

تَبَارَكَ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْفُرْقَانَ عَلَـىٰ عَبْدِهِۦ لِيَكُونَ لِلْعَٟلَمِيـنَ نَذِيرٙا ١

ثبات و دوام ہے ان جناب کو جنہوں نے اپنے بندے(محمّد ﷺ)پر "الفرقان"/حق اور باطل میں تمیز اور پہچان کرنے کا  عالمی معیاری پیمانہ، کووقفے وقفے سے بھیجا۔اس تنزیل کا مقصد یہ ہے کہ ان(ہمارے بندے)کی حیثیت تمام کے تمام عالم کے لئے زمان و مکان میں کفر و نافرمانیوں کے نتائج و انجام سے پیشگی خبردار کرنے والے کی  ہو جائے۔(الفرقان۔١)

تمام انبیاء علیہم السلام میں صرف آقائے نامدار، رسول کریم محمّد ﷺ کو "لِلْعَٟلَمِيـنَ"نذیر قرار دیا گیا ہے۔اس جار و مجرور میں حرف جر "لِ"لامالاختصاص کہلاتا ہے اور اس کے معنی و مفہوم کسی کے متعلق  کسی بات کی آگاہی، قابلیت،  دائرہ کار کو اس کے ساتھ مخصوص کرنا ہیں۔ اور عالمین میں  تمام بنی نوع انسان اور جنات شامل ہیں جن تک قرءان مجید زمان و مکان میں پہنچا اور پہنچے گا۔اور آپ ﷺ سے براہ راست خطاب میں فرمایا:

وَمَآ أَرْسَلْنَـٟكَ إِلَّا كَآفَّـةٙ لِّلنَّاسِ بَشِيـرٙا وَنَذِيـرٙا
وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ٢٨

(اے رسولِ کریم)ہم جناب نے آپ (ﷺ)کو محض ایک قوم کی جانب رسول بنا کر نہیں بھیجا  مگرتمام بنی نوع انسان  کے لئے   کفایت۔آپ کی حیثیت زمان و مکان میں خوش کن نتائج کی خبر،ضامن اورکفر و نافرمانیوں کے نتائج و انجام سے پیشگی خبردار کرنے والے کی ہے۔
مگراکثر لوگ  سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔(سورۃ سباء۔٢٨)

اور آقائے نامدار،رسول کریم ﷺ سے ارشاد فرمایا کہ  تمام کے لئے واضح کر دیں کہ آپ ﷺدائمی نذیر ہیں:

وَأُوحِـىَ إِلَـىَّ هَـٟذَا ٱلْقُرْءَانُ لِأُنذِرَكُم بِهِۦ وَمَنۢ بَلَغَۚ

اور یہ ٱلْقُرْءَانُ مجھے  زبانی(وحی)پہنچایا گیا ہے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ میں تم لوگوں( ہمعصر،ہم نشیں)کواس کے ذریعےکفر و نافرمانیوں کے نتائج و انجام سے پیشگی خبردار کروں اور ہر اس شخص کو جسے زمان و مکان میں یہ ٱلْقُرْءَانُ پہنچ گیا۔(حوالہ الانعام۔۱۹)  

اللہ تعالیٰ نے زمان و مکان میں  فتنہ پردازوں اورکاذب  منافقین میں   سے نبوت اور رسالت کا دعویٰ کرنے والوں کو متنبہ کر دیا تھا  کہ نبوت، رسالت، بشیر، نذیر، معجزہ اور ہدایت کے اجراء کا اختتام ہو گیا ہے۔

وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِـى كُلِّ قَرْيَةٛ نَّذِيرٙا ٥١

آپ(ﷺ)جان لیں؛  ہم جناب کا ارادہ آپ(ﷺ)کو عالمگیر نذیر بنانے کا تھا وگرنہ اگر ہم چاہتے تو ہر ایک ایک شہر /قریہ میں ایک نذیر کو مبعوث فرما دیتے۔

فَلَا تُطِعِ ٱلْـكَـٟفِرِينَ وَجَٟهِدْهُـم بِهِۦ جِهَادٙا كَبيـرٙا ٥٢

اس لئے آپ(ﷺ)ان لوگوں کی حجتوں اور دشنام طرازی کو درخور اعتناء نہ سمجھیں جنہوں نے آپ کو  عالمی رسول اللہ اور قرءان مجید کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔اور آپ(ﷺ)ان کے خلاف اس (قرءان مجید)کے توسط سے جدوجہد جاری رکھیں؛ایک بڑا جہاد،علم کی روشنی دینے کا۔(الفرقان۔٥٢)

آقائے نامدار، رسول کریم محمّد ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آپ ہر اس شخص کے لئے نذیر ہیں جسے قرءان مجید زمان و مکان میں پہنچ گیا(حوالہ الانعام۔۱۹)اور  اللہ تعالیٰ نے قرءان مجید کو ذی حیات(Personification)کے انداز میں بیان فرماتے ہوئے  انبیاء کرام اور رسول کریم ﷺکی مانند  ہمیشہ کے لئے عالمی "بَشِيـرٙا وَنَذِيـرٙا"قرار دے کراختتام نبوت و رسالت  اور  ہدایت  کا واشگاف اعلان فرما دیا۔

كِتَٟبٚ فُصِّلَتْ ءَايَٟتُهُۥ قُرْءَ انٙا عَـرَبِيّٙا لِّقَوْمٛ يَعْلَمُونَ ٣
بَشِيـرٙا وَنَذِيـرٙا
فَأَعْـرَضَ أَكْثَرُهُـمْ فَهُـمْ لَا يَسْمَعُونَ ٤

یہ کتاب ہے،اس کا اہم وصف یہ ہے کہ اس کی آیات/مندرجات کو جدا جدا    سورتوں/ابواب اورموضوعات کے فریم میں تالیف کیا گیا ہے۔اس کے مدون متن کا وصف یہ ہے کہ جزیرہ عرب کی فصیح و بلیغ زبان میں ہے؛ان لوگوں کے لئے جو معلومات حاصل کرنے کے متمنی رہتے ہیں۔
اس کتاب کی حیثیت زمان و مکان میں خوش کن نتائج کی خبر،ضامن اورکفر و نافرمانیوں کے نتائج و انجام سے پیشگی خبردار کرنے والے کی ہے۔چونکہ اسے اپنے مفادات سے متصادم سمجھتے ہیں اس لئے ان(اکابرین،عمایدین)کی اکثریت نے اس کو پیش کئے جانے پر اعراض برتا ہے،نتیجہ یہ ہے کہ اب اسے توجہ سے سنتے بھی نہیں۔(سورۃ فصلت۔۴)

اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کے مبارک ہونٹوں اور زبان سے  بلاغت کی ایک صنف  تجسم (personification)کو استعمال کر کےقرءان مجید کو ابدی "ذی حیات شخصیت"بنا دیا ہے ۔ علم کی دنیا میں کتاب کواعلیٰ قرار دینے کا ایک معیار یہ ہے کہ اپنے متعارف ہونے کے زمانے کے نقوش ہمیں دکھائے۔قرء انِ مجید کی یہ ایک صفت عظیم ہے۔اِس کی عظمت کا  ثبوت یہ ہے کہ اپنے متعارف ہونے کے طویل عرصے کی تاریخ کو اِس قدر تصویری انداز میں بیان فرماتا ہے کہ اُس دور کا مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ ہمیں جیتا جاگتا دکھائی دینے لگتا ہے، اِس قدر روشن اور واضح کہ ہم اپنے آپ کو اُس دور اور شہر کا زندہ باسی تصور کر سکیں۔ یہ واحد کتاب ہے جس کے مطالعہ سے  "وقت کا سفر"/Time Travel سائنس فکشن نہیں بلکہ ایک حقیقت محسوس ہونے لگتا ہے کہ ماضی ماضی نہ رہے اور مستقبل مستقبل نہ رہے اور انسان کسی حد تک اس قابل ہو جائے کہ کائنات کی چاروں جہتوں(space-time; four dimensions)میں اپنے آپ کو موجود پائے۔

مگر اس قدر واضح،سادا،تفصیل اور فصاحت و بلاغت کے انداز میں اس اعلان کہ نبوت،رسالت،بشیر،نذیر،معجزہ اور ہدایت کے اجراء کا اختتام ہو گیا ہے ، برصغیر میں ایک بدبخت ، بیسویں صدی کے بدترین منافق مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا اورخود کو نبی نہ ماننے والوں کو  اس نے   ببانگ دہل کافر قرار دیا۔اس نے  یہودی آقاؤں کی سرپرستی اور مالی معاونت سے جماعت احمدیہ  کو تشکیل کر کے برصغیر میں فتنے کا آغاز کیا۔ آقائے نامدار،رسول کریم محمَّد ﷺسے نہ ختم ہونے والا غبار خاطر، کڑھن،جلن،کینہ اورحسد یہودی عمائدین کے قلوب میں ویسے ہی جاگزیں ہے جیسے ابلیس کے قلب میں آدم علیہ السلام اور بنی آدم کر مکرم اور افضل قرار دینے سے ہوئی تھی جو یوم قیامت تک برقرار رہے گی۔کائنات میں  اولین منافق بننے کا "اعزاز" بھی یہودی عمائدین نے حاصل کیا تھا۔

بنی اسرائیل کی فطرت اور اُن کی اندرونی کیفیت و نفسیات کو واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔آقائے نامدار رسولِ کریم ﷺکی بعثت اور نزولِ  قرءان  مجیدسے قبل بنی اسرائیل اپنے مقابل جنہیں کافر سمجھتے تھے وہ اہلِ عرب تھے جن پر علمی،فکری اور ہر طرح سے فیصلہ کن غلبہ اور برتری حاصل کرنے کے لئے ا للہ تعالیٰ کے آخری نبی اور کتاب آنے کے منتظر تھے۔اپنے  علاوہ تمام دنیا کو کافر سمجھ کر ان پر فیصلہ کن غلبہ اُن کی سوچ کا محور تھا(حوالہ البقرۃ۔٨٩)۔ آیت میں بتایا گیا ہے کہ نبی اور کتاب کے منتظر تھے اورسورۃ الصف کی آیت۔ ۶ بتاتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے اپنے بعد آنے والے فقط ایک رسول کی خوشخبری دی تھی۔ یہود کے اکابرین اور علما کا عجب رویہ ہے۔عیسیٰ علیہ السلام کو المسیح،رسول اللہ ماننے سے انکار کیا مگر لگتا ہے کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی اس خوشخبری کو قلب میں مان لیا تھا کہ ان کی طبعی موت کے بعد اب فقط ایک رسول نے آنا ہے۔اگر ایسا نہیں ہے تو ان کے قبیلوں کا جزیرہ عرب میں جا کر آباد ہونے اور اعراب بننے کا کوئی دنیاوی ظاہری سبب  اور منطق نہیں ہے سوائے اس کے کہ انہیں آخری رسول کاجو نام بتایا گیا تھا  وہ مطلق عربی زبان کا اسم ہے۔مگر جب  عالمگیر رسول کریم کا ظہور ہو گیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔انکار کی وجہ محض    شیطانی جذبات اور سوچ کا ان پر غلبہ تھا۔ارشاد فرمایا:

بِئْسَمَا ٱشْتَـرَوْا۟ بِهِۦٓ أَنفُسَهُـمْ أَن يَكْـفُـرُوا۟ بِمَآ أنَزَلَ ٱللَّهُ
بَغْيٙا أَن يُنَزِّلَ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ عَلَـىٰ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦۖ
فَبَآءُو بِغَضَبٛ عَلَـىٰ غَضَبٛۚ  وَلِلْـكَـٟفِرِينَ عَذَابٚ مُّهِيـنٚ٩٠

 کتنی بری/ہلکی ہے وہ بات جس کے عوض انہوں نے دانستہ اپنا سودا کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجتمع انداز میں نازل کیا/ان تک پہنچایا ہے اُس کا انکار کر دیں—
انہوں نے ایسامحض اِس جذباتی جلن اور غبار خاطر سے کیا کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل (آخری کتاب قرءانِ عظیم)اپنے بندوں میں سے اس  اشرف قرار پائےپربتدریج نازل کریں جنہیں وہ خود پسند فرماتے ہیں۔
چونکہ انکار محض ذاتیات  کی  رنجش  کے سبب ہے اور اپنے میثاق سے روگردانی بھی  ہے  اس لئے انہوں نے اپنے آپ کومجرمانہ جانکاری کے مستحق در مستحق بنا لیا ہے ا للہ تعالیٰ کی جانب سے گرفت میں لئے جانے کے۔متنبہ رہو؛ ایک ذلت آمیز عذاب قرء ان(مجید)کا انکار کرنے والوں کے لئے تیار اور منتظر ہے۔(البقرۃ۔۹۰)

اللہ تعالیٰ نے یہودی عمائدین  میں انکار کرنے والوں کے انکار کی وجہ بھی افشاں کر دی کہ محض آقائے نامدار،رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس سے بَغْيٙا، کینہ، جلن،پرخاش اور کڑھن کا شاخسانہ تھا۔عرب کے زمانہ جاھلیت کی خاص بات لوگوں کا جذبات پرست ہونا،نسلی حمیت،قبائلی برتری، خود ساختہ عظمت  اور فضیلت کا زعم  تھا۔بنی اسرائیل کے عمائدین میں یہ "جھالت"اپنے عروج پر تھی۔آقائے نامدار،رسول کریم چونکہ ان کے جد امجد ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں اس لئے سلسلہ نبوت میں انہیں فضیلت دے کر   خَاتَـمَ ٱلنَّبِيِّــۧنَ    اورعالمگیر رسول مبعوث کئے جانے پر ان کے اپنے تخیل سے بنائی ہوئی امیدیں دم توڑ گئیں۔تخیل سے بنائی ہوئی  افضل اور اشرف  بنائے جانے کی امیدیں جب دم توڑتی ہیں تو احساس مایوسی اپنی انتہا پر ہوتا ہے ۔اور اس انتہا کی مایوسی شیطانیت اور طاغوت کو جنم دیتی ہے۔پھر چاہے ابلیس ہو چاہے خود ساختہ  عظمت و بڑائی کے غرور اور تکبر کی دلدل میں دھنسے اکابرین و عمائدین   اور مرزا غلام احمد اور راشد خلیفہ جیسے شیطان کا پرتو بن جاتے ہیں،حقیقت سے دور سرکش اور باغی  ۔جسے یہ  شیطانی خیال ڈس لے وہ اصلی شیطان یعنی کوبرا سانپ کے ڈسے شخص کی مانند  مخبوط الحواس، دو نظری(diplopic)بن جاتا ہے۔

جس کسی کابڑائی کاخود ساختہ زعم اور اُسے پانے  کی خواہش جب پاگل پن کی حدوں کو چھونے لگے توایسی کیفیت تنبیہ کے باوجودجہنم کی آگ میں ڈال دئیے جانے کے بدترین انجام کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔در حقیقت  خودستائی  میں عالی مرتبت ہونے کے گمان میں مبتلا اندر سے کھوکھلے ، گھٹیا اور پست ذہنیت اور نفسیات رکھنے والے  کم ظرف بیوپاری  ہیں جو حسد میں  بالاخرخود اپنی ذات  کو بیچ  دیتے،اورمسخ  کر کے زمین بوس ہوتے ہیں ۔یہودی  عمائدین اور علماء کی اکثریت حسد کی آگ میں جل رہے ہیں۔

وَدَّ كَثِيـرٚ مِّنْ أَهْلِ ٱلْـكِـتَٟبِ
لَوْ يَرُدُّونَكُـم مِّنۢ بَعْدِ إِيمَٟنِكُـمْ كُفَّارٙا حَسَدٙا مِّنْ عِنْدِ أَنفُسِهِـم
مِّنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّـنَ لَـهُـمُ ٱلْحَقُّ
ۖ فَٱعْفُوا۟ وَٱصْفَحُوا۟ حَـتَّىٰ يَأْتِـىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦٓۗ
إِنَّ ٱللَّهَ عَلَـىٰ كُلِّ شَـىْءٛ قَدِيرٚ ١٠٩

اہلِ کتاب میں سے  ان (یہودی)مقتدر اور صاحبان علم کی اکثریت    کی یہ خواہش ہےجو نسلی تعصب اور جلن کی  آگ میں کڑھ رہے ہیں۔
کہ کاش تم  رسول کریم اور قرءان مجید پرایمان لے آنے والوں کوایمان لانے کے بعدانکار کرنے والوں میں لوٹا دیں ۔ یہ خواہش صرف اُن کے حسد کی بنا ء پرہے۔
ان کی یہ خواہش باوجود اس کے ہے کہ بیان حقیقت (قرء ان مجید)نے ان کے لئے ہر بات کو نکھار کر واضح اور متمیز کر دیاہے ۔اِس لئے تم لوگ حقیقت بتا ؤ اور اُن سے کنارہ کش رہو اُس وقت تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم جاری ہو/تم تک پہنچے۔
یقیناًاللہ تعالیٰ ہر ایک شئے اور معاملے کو پیمانوں میں مقید کرنے پر ہمیشہ سے قادر ہیں۔(البقرۃ۔١٠٩)

"حَسَدٙا"مصدر [فعل حَسَدَ-يَحْسُدُ] کامادہ ”ح س د“اور اصل معنی چھیلنے کے ہیں۔وہ ذہنیت جس کی رو سے تمنا کی جاتی ہے کہ دوسرے کے پاس جو کچھ ہے وہ اُس سے چھن کر مجھے مل جائے اور اگر مجھے نہ بھی ملے تو کم از کم اُس سے ضرور چھن جائے۔ اور اِس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے حربہ بھی انہوں نے وہی پسند کیا ہے جو ابلیس نے اختیار کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کلام،بیانِ حقیقت سے ماوراء تخیل سے اختراع کی ہوئی باتوں کو زمان و مکان میں کثرت سے پھیلا کر ذہنی اور فکری انتشار پیدا کرنا تا کہ لوگ اپنی خواہشوں میں مگن رہنے کے باوجود آخرت کے متعلق خوش فہمیوں اور آرزؤں میں ڈوبے رہیں۔

ابلیسیت کے پیروکار،خود ستائی، خود نمائی، خود پرستی کی نفسیاتی بیماری  کے شکار مختلف طرح کے عدم توازن والی شخصیات (personality disorders)نے اللہ تعالیٰ کے نبی کے مماثل مقام کی خواہش اور آرزو میں  نبوت کے اختتام کومبہم اور مشکوک بنانے کے لئے تمام بحثوں کا محور سورۃ  الاحزاب کی آیت مبارکہ۔40کو بنایا ہے۔شیطان کے نقش قدم پر چلنے والے یہ لوگ کس قسم کے عدم توازن والی شخصیات  ہیں؟یہ جاننے اور جواب دینے کے لئے آپ کا ماہر نفسیات ہونا قطعی ضروری نہیں۔یہ جو چاہتے ہیں وہی ان کی نفسیاتی بیماری اور شخصیت کی  تشخیص ہے۔نرگسیت پسند  شخصیت۔جسے انگریزی میں "Narcissistic Personality Disorder" کہتے ہیں۔اور قرءان مجید کی تشخیص کے مطابق  انہیں  عربی زبان  میں  ایک  اصطلاح منافق سے موسوم کیا گیا ہے۔

نفسیاتی سائنس کے ماہرین  شخصی عوارض میں بتاتے ہیں کہ یہ ایک ایسی  ذہنی حالت ہے جس میں لوگوں کو  اپنی اہمیت کا احساس بہت ابھرا ہوا اور گہرہ ہوتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ گہری توجہ  اور مدح سرائی کے طالب ہوتے ہیں۔اور مشقت،پریشان کن تعلقات اوردوسروں کے لئے ہمدردی کا فقدان ہوتا ہے۔ایک انتہائی اعتماد کا وہ نقاب اوڑھے ہوتے ہیں  جس کے پیچھے درحقیقت ایک نازک خود اعتمادی ہے جو ہلکی سے تنقیدی آواز سے بھی  خطرہ محسوس کرتی ہے۔اسلامی معاشرے میں یہ "خصوصیات"منافقین میں  بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔

ابلیسیت کے پیروکار یہ تمام لوگ دعویدار ہیں کہ  قرءان مجید کو مانتے ہیں اور یہ کہ اس سے استدلال کرتے ہیں۔ان میں سے بعض  جیسے مرزا غلام احمد اور راشد خلیفہ عربی زبان کے عالم فاضل ہونے کے بھی شہرت رکھتے تھے  اور قرءان مجید کے مترجم اور" مفسر "بھی ہیں۔آخر یہ لوگ نبی کے مقام کے مماثل ہی کے خواہش مند  کیوں ہیں؟ اس لئے کہ یہ سب جانتے تھے اور ہیں کہ تمام کائنات اور مخلوقات میں نبیوں کا مقام و مرتبہ بلند ترین اور وہ اشرف المخلوقات ہیں کیونکہ ملائکہ اور جنات میں سے کسی کو یہ مرتبہ عنایت نہیں کیا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام کو "ٱلسُّفَهَآءُ"منفرد قسم کےبے وقوف قرار دیا ہوا ہے (حوالہ البقرۃ۔13)

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہمیشہ مطلق حقیقت ہوتا ہے۔محض ایک حوالے سے ان لوگوں کا نہ صرف  منفرد قسم  کےبے وقوف ہونا ثابت ہو جاتا ہے بلکہ  ختم نبوت پر  ان کی تمام بحث   کا اختتام ہو جاتا ہے جس کو یہ لوگوں کو الجھانے اور اپنے  گرویدہ بنانے کے لئے  دانستہ گنجلک بناتے ہیں۔یہ جھوٹ، تحریف ، اختراع اور من گھڑت اوٹ پٹانگ تاویلوں سے اپنے اپ کو قرءان مجید کے حوالے سے نبی اور رسول یا ان کے مماثل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر خود اپنے ترجمے اور تفسیر میں سورۃ الحدید کی آیت ۔ 10 میں اللہ تعالیٰ کے قول فیصل میں تحریف کرنا بھول گئے اور خود لکھا کہ دنیا میں پیدا ہونے والا کوئی انسان رتبے اور مقام میں ان لوگوں کے مساوی نہیں ہو سکتا جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے ایمان لا  کر مال  خرچ کیا اور جنگ میں حصہ لیا۔ خود مانا کہ  ان صحابہ کرام کے مقام و مرتبت  کے مساوی  درجے کے اہل کوئی انسان نہیں۔اس کے باوجود کتنے منفرد قسم کے بے وقوف ہیں  کہ ان صحابہ کرام سے کہیں اونچے درجے اور مقام  پر اپنے آپ کو فائز کرتے اور لوگوں سے منوانے کے درپے رہتے ہیں۔

مرزا غلام احمد اور راشد خلیفہ  جیسی فاسق سرشت رکھنے والے ماضی کے ایک سکالر کی مثال بیان کرنے کا  اللہ تعالیٰ نے آقائے نامدار،رسول کریم کو حکم دیا:

وَٱتْلُ عَلَيْـهِـمْ نَبَأَ ٱلَّذِىٓ ءَاتَيْنَـٟهُ ءَايَٟتِنَا فَٱنسَلَخَ مِنْـهَا
فَأَتْبَعَهُ ٱلشَّيْطَٟنُ فَكَانَ مِنَ ٱلْغَاوِينَ ١٧٥

اور آپ(ﷺ)اس شخص کی خبر ان لوگوں(بنی اسرائیل)کو بعینہ نازل کردہ الفاظ میں سنا دیں جسے ہم جناب نے  اس دور میں نازل کردہ  کتاب کے مندرجات (آیات)کا علم عنایت کیا تھا۔چونکہ اس نے انہیں اپنا ذریعہ معاش بنا لیا تھا اس لئے  شئے  سے الگ  ہوئے چھلکے کی مانند وہ ان سے الگ سوچ کا حامل ہو گیا۔
چونکہ شیطانی روش پر عمل پیرا ہو گیا تھا اس لئے شیطان اس کا پیچھا کرتا رہا۔اس کے نتیجے میں اس نے شیطانی ،راست سے بھٹکے برباد ہوئے شخص کی زندگی بسر کی۔
(الاعراف۔
١٧٥)

اور اللہ تعالیٰ نے اس کے مُماثل کے متعلق بتایا:

وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَٟهُ بِـهَا وَلَـٟكِنَّهُۥٓ أَخْلَدَ إِلَـى ٱلۡأَرْضِ وَٱتَّبَعَ هَوَىٰهُۚ
فَمَثَلُهُۥ كَمَثَلِ ٱلْـكَلْبِ إِن تَحْـمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْـرُكْهُ يَلْهَثۚ

اور اگر ہم  جناب نے(اس کو عنایت کردہ حریت کو سلب کرنے کا)ارادہ کیا ہوتا تو یقیناً ہم اسے ان(آیتوں)کے ذریعے ارفع مقام دے دیتے مگر اس نے اپنے آپ کو پستیوں کی جانب بدستور رواں رکھا۔اور اس نے دانستہ اپنے مفادات اور خواہشات کی پیروی کو مقدم رکھا۔
چونکہ اس نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھنے کے لئے دلفریب باتوں کی تکرار کو اپنی روش بنا لیا تھا اس لئے اس کی مثال ایک منفرد کتے کے مثل ہے۔اگر آپ(ﷺ)اس(منفرد کتے)پر بوجھ لاد دیں تو وہ زبان کے لعاب کو باہر نکال کر ہانپے گا،یا اگر آپ اسے ویسے چھوڑ دیں تب بھی زبان کے لعاب کو باہر نکال کر ہانپے گا۔
(حوالہ الاعراف۔
١٧٦)

عرب میں کتوں سے باربرداری کا کام نہیں لیا جاتا تھا۔لیکن آیت مبارکہ سے واضح ہے کہ مخصوص  کتے (sled dog)کا حوالہ ہے جو سائبیریا جیسے علاقوں میں باربرداری کیلئے استعمال ہوتا ہے۔اس بات کو یاد رکھیں کہ زبان نکال کر کتا اپنے دماغ کی حرارت کو ٹھنڈا کرتا ہے،یہ اس کا فطرتی نظام ہے۔اور یہ کہ کتا اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے اور اس میں کوتاہی نہیں کرتا۔اس لئے اس کا تذکرہ  طنزیہ یا گھٹیا پن کے لئے نہیں ہے۔ایک مقصد کے لئے بیان کیا گیا ہے کہ  نرگسیت پسند شخصیت کی  مفادات کے حصول کے لئے ہر وقت رال  ٹپکتی رہتی ہے۔آئیں معروضی طور پر غور کریں کہ بظاہر ایک عالم،مذہبی رہنما جس کی تمثیل ہمارے علم میں لائی گئی ہے،اس کی نفسیات اور روئیے کے بارے میں،اگر ایسا کوئی شخص ہمارے آس پاس موجود ہے تو اس کو پہچان لیں اور اس سے کنارہ کش ہو جائیں۔اورمرزا غلام احمد کی تشکیل کردہ جماعت سے علیحدگی اختیار کر لیں کیونکہ  اس شخص کی مثال پوری قوم/جماعت پر بھی صادق آتی ہے:

ذَّٟلِكَ مَثَلُ ٱلْقَوْمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُوا۟ بِـٔ​َايَـٟتِنَاۚ فَٱقْصُصِ ٱلْقَصَصَ لَعَلَّـهُـمْ يَتَفَكَّرُونَ ١٧٦

یہ بیان کردہ روش ان لوگوں کی بھی مثال ہے جنہوں نے ہم جناب کی نازل کردہ آیات سے الصاق کر کے باتکرار جھوٹ بولا۔چونکہ اس طرح کے لوگ ہر دور میں موجود ہوتے ہیں  اور آپ  کی  نرم خو عادت کو جانتے ہوئے ہم  آپ (ﷺ)کو تاکید کرتے  ہیں کہ اس قصہ کو من و عن الفاظ میں بیان کر  دیں۔اس سے مقصد اور امکان یہ ہے کہ وہ ازخود غورو فکر سے  کام لے کرایسے لوگوں کو متمیز کر سکیں۔(الاعراف۔١٧٦)

اس خواہش کے زیر اثر کے مرزا غلام احمد اورراشد خلیفہ جیسے لوگوں سے متاثر ہو کر یا ان سے متاثر اپنے باپ دادا کی تقلید میں انجانے میں (فاسق)منحرف ہو کر ضالین اور منافقین کی فہرست میں شامل ہو گیاکوئی شخص پلٹ پائے، میں نے کوشش کی ہے کہ قرءان مجیدکے اہم ترین موضوعات میں شامل اختتام نبوت، اختتام رسالت، اختتام وحی،اختتام آیات (معجزات)، اختتام ہدایت اور اتمام دین؛جنہیں انتہائی نفاست سے متن میں فصل اورانتہائی آسان فہم انداز میں  واضح  اور متبین فرمایا گیا ہے،اختصار سے مگر سختی سے اکیڈیمک اصولوں کے تابع رہتے ہوئے بیان کر دوں۔محبت کی اوج یہ غم ہے کہ کسی کو دوزخ میں جانے کے امکان سے دور کرنے کے لئے حتیٰ الامکان کوشش کی جائے۔یہ اصل حیات(ٱلْحَيَوَانُ)دینا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدرعالی مرتبت رسول کریمﷺکے قلب مبارک کےنہ ختم ہونے والےغم کو جاننے والےاور اللہ تعالیٰ سے شاباش پانےکے ہر خواہش مندپر یہ جذبہ محبت واجب ہے۔مشورہ ہے کہ اوپر بیان کردہ آیات مبارکہ پر ازخود غوروفکر کر کے نبی کا بہروپ دھارنے والے  منافق مرزا غلام احمد کو پہچان کر واپس آقائے نامدار، رسول کریم محمَّد ﷺکی رحمت کی چھاؤں تلے آ جاؤ اور آخرت کو سنوار لو ،اس سے قبل کہ وقت اور مہلت ہاتھ سے نکل جائے یا قلوب پر مہر لگ جائے۔اگر پلٹ آؤ گے تو اس دوران مسلمانوں کی طرح جو اعمال کئے ہیں وہ اجر کے مستحق رہیں گے وگرنہ آخرت کے حوالے سے خاکستر ہیں۔

قَالَتِ ٱلۡأَعْـرَابُ ءَامَنَّاۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا۟ وَلَـٰكِن قُولُوٓا۟ أَسْلَمْنَا
وَلَمَّا يَدْخُلِ ٱلْإِيمَٟنُ فِـى قُلُوبِكُـمْۖ وَإِن تُطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ
لَا يَلِتْكُـم مِّنْ أَعْمَٟلِـكُـمْ شَيْـٔٙاۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٚ رَّحِـيـمٌ ١٤

حجاز میں بودوباش اختیار کر کے عربیت طرز زندگی کے خوگرہو جانے والوں(یہودیوں)میں جانے پہچانے لوگوں نے کہا’’ہم رسول کریم اور قرءان           مجید پر ایمان لے آئے ہیں‘‘۔آپ(ﷺ)ارشاد فرمائیں’’تم لوگ ایمان نہیں لائے، البتہ تم لوگ یہ کہو’’ہم اسلام پر کاربند ہو گئے ہیں،مسلمان ہو گئے ہیں‘‘۔
اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اور جب بھی ایمان  تم لوگوں کے قلوب میں داخل ہو جائے گا۔اور اگر تم اللہ تعالیٰ اور ان کے       رسو ل   کریم  محمّد (ﷺ)کے بیان ( قرءان مجید)کو قلب و زبان سے      تسلیم   کر لو گے۔
توایسا کر لینے پر وہ جناب تمہارے اسلام کے تحت اور اچھے اعمال میں قطعاً صرف نظر نہیں کریں گے۔یقینا اللہ تعالیٰ  درگزر اور پردہ پوشی کرنے اور معاف فرمانے والے ہیں، منبع رحمت ہیں
۔(الحجرات۔۱۴)

آئین پاکستان میں قادیانیوں اور لاہوری فرقہ کے بارے ترمیم کرتے ہوئے  پارلیمنٹ سے سہو ہو گئی  تھی کہ بجائے انہیں فاسق اور منافق قرار دینے کے غیر مسلم قرار دیا گیا۔قرءان مجید ایمان لانے کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں  کو کاذب،فاسق اور منافق  قرار دیتا ہے اور ان کو دشمن گردانتے ہوئے ان سے محتاط رہنے کا حکم دیتا ہے۔

هُـمُ ٱلْعَدُوُّ فَٱحْذَرْهُـمْۚ

وہ (منافقین)منفرد قسم کے دشمن ہیں۔چونکہ آستین کے سانپ کی مانند اردگرد موجود ہیں اس لئے آپ(ﷺ)ان سے محتاط اور ہشیار رہیں۔(حوالہ سورۃ المنافقون۔٤)

منافقین ڈھٹائی سے جھوٹا حلف لینے کے بھی عادی ہیں۔دوٹوک الفاظ میں مطلع فرمایا:

إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُنَٟفِقُونَ قَالُوا۟ نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ ٱللَّهِۚ
وَٱللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُۥ وَٱللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ ٱلْمُنَٟفِقِيـنَ لَـكَـٟذِبُونَ ١

جب  آپ(ﷺ)کے پاس منافقوں کا ایک ٹولہ  آیا تو انہوں نے کہا:’ہم حلفاً  گواہی دیتے ہیں،یقیناً آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں‘‘۔
اور اللہ تعالیٰ مطلق جانتے ہیں،حقیقت  ہے کہ آپ (ﷺ)یقیناًان کے رسول ہیں۔اور اللہ تعالیٰ یہ گواہی دیتے ہیں،منافقین کی حقیقت اور اصلیت یہ ہے کہ ہر وقت جھوٹ بولنے والے ہیں۔(المنافقون۔۱)