قرآن مجید تفسیر حقیقت اور بیان حقیقت ہے


قرءان  مجید کا ایک  وضاحتی نام (epithet)نور  ہے جس کے معنی  سفید روشنی(white light)ہیں۔غیر سائنسی انداز میں اسے ہم سات رنگوں کا مجموعہ کہتے ہیں۔یہ رنگ ایک خاص  ترتیب سے ہیں۔ قرءان مجید کےمعنی اور مفہوم اور مصنف  کے نقطہ نظر تک پہنچنے کے لئے  بھی سات منزلیں /مراحل ہیں۔ٱلنُّورُکواپنےخلیوں  اور ڈی این اے میں سرایت کرنے کی ہم کوشش کریں اور اس طرح انہیں ابدی کر لیں۔

1۔ انفرادی الفاظ کے سطحی معنی؛یہ نور کا پہلا رنگ سرخ  جذب کر لینے کی مانند ہو گا۔یہ اس رنگ کی نفسیات کے          مطابق پرجوش کرے گا۔آگے بڑھنے کا جذبہ بیدار کرے گا۔اور رنگ کی مانند جو گولڈن پیلے کے بعد سب سے زیادہ واضح دکھائی دیتا ہے الگ الگ الفاظ نظروں میں واضح ہوتے ہیں۔ان کے معنی جان لینے سے زیر بحث  تصور، موضوع کا سرسری اندازہ ہو جاتا ہے۔

2۔الفاظ کا تجزیہ ،ماخذ /جذرمیں  سمویا تصور کیا ہے جو اس سے بننے والے الفاظ  میں لازمی جھلکے گا؛ لفظ کی قسم کیا ہے۔اسم ہے تو کون سا اسم وغیرہ۔اور بناوٹ (صرف)۔فعل اور اس کے ابواب کا تعین کرنا۔یہ معنی اور مفہوم کی دوسری تہہ ہے۔اس کو جذب کر لیا تو نور کا نارنجی حصہ جذب کرنے کے مترادف     ہے۔یہ خوشی،ولولہ پیدا کرتے ہوئے تخلیقی صلاحیت میں کشش اور کامیابی کے لئے حوصلہ افزائی کا محرک بنے گا۔گرائمر کی زبان میں اسے "صرف"(morphology)کہتے ہیں۔

3۔مرکبات کو پہچان کر انہیں ایک جز بنانا۔اور اسکے معنی سمجھنا۔یہ معنی اور مفہوم کے ادراک کی تیسری تہہ بن جائے گی۔یہ منزل ایسے ہے جیسے آپ نے نور کا پیلا رنگ(صَفْرَآءُ )جذب کر لیا۔یہ  رنگوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہوتا ہے اور عربی کے مرکبات نظروں سے پہچاننے کے لئے  متن میں سب سے نمایاں ہوتے ہیں۔یہ کائنات کا رنگ ہے۔یہ اسلام کی نمائندگی کرتا ہے۔ ۔یہ تخلیقی صلاحیت، اعلیٰ توانائی اور امید کا رنگ ہے۔اس کو دیکھنے سے انسان میں خوشی کا احساس پیدا ہوتا ہے(حوالہ البقرۃ۔69)۔اس کو دیکھنے پر انسان کا دماغ ایک کیمیائی مادے  "سیراٹونن"(seratonin)کو زیادہ ریلیز کرتا ہے اور اس کو دماغ کا پرمسرت،خوشی کی کیفیت والا کیمیکل تسلیم کیا جاتا ہے۔

اسلام سے کس قدر گہرائی اور نفاست سے یہ رنگ مماثلت رکھتا  ہےوہ اس کے منفی پہلو سے سمجھنا آسان ہے۔یہ دھوکہ دہی اور بزدلی کا بھی رنگ ہے اور اسلامی معاشرے میں ان "خصوصیات" والوں کو منافق کہا جاتا ہے۔منافق کی اصطلاح  کا اطلاق صرف ایمان والوں کے درمیان رہنے والوں پر ہوتا ہے۔

4۔الفاظ کے کردار کا تعین کرنا (نحو)۔یہ الفاظ کے انفرادی معنی کے مجموعہ سے زیادہ معنی کی تہہ بنا دے گا۔یہ منزل ایسے ہے جیسے نور کا سبز رنگ جذب کر لیا۔علمی نفسیات(Cognitive Psychology)کے ماہرین کی جدید ریسرچ کے مطابق یہ رنگ  تحریر کوپڑھنے اور سمجھنے  کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔یہ طاقتور جذبات کو جنم دے سکتا ہے۔یہ فطرت کا رنگ ہے جو ہمیں ترقی کے بارے سوچنے پر مجبور کرتا   ہے۔یہ کثرت کا احساس پیدا کرتا اورتازگی،امن، آرام اور سلامتی سے وابستہ ہے۔یہاں تک ہمیں تحریر کی سمجھ آ گئی تو یہ ہماری سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ کر کے مزید گہرائی میں اترنے کا جذبہ اور امنگ دے گی۔

5۔کردار کا تعین ہو جانے پر یہ معلوم کرنا کہ کیا تمام کاایک دوسرے سے تعلق اور ملاپ ہے۔اگر نہیں ہے تو سمجھ لینا کہ کچھ محذوف ہے۔اور اس کو متعین اور متبین کرنا۔یہ کر لیا تو سمجھیں ہم نے سبز اور نیلے کے امتزاج والے رنگ سبز نیلگوں(Cyan)کو جذب کر لیا ہے۔یہ پرسکون نفسیات کا رنگ ہے۔یہ راحت کی علامت ہے خاص کر جو روشن فیروزی ہے۔یہ نفسیات میں خیال کی شخصی آزادی،خود انحصاری کو قابل فخر مان  کر دوسروں پر انحصار کرنے کو پسندیدہ نہیں بتاتا۔اور فکری تکمیل کی لگن پیدا کرتا ہے۔اور کتاب کے حوالے سے یہ لگن اس کے مصنف کی آواز کو سننے اور نکتہ نظر کے قریب پہنچنے کا شوق ابھارتا ہے۔

6۔جملے کو ساخت اور معنوی اعتبار سے متبین کرنا کیونکہ دونوں معنی اور مفہوم میں ایک اور سطح کا اضافہ کرتے ہیں۔یہ تجزیہ کر کے مفہوم کوکافی گہرائی اور گیرائی سے انسان سمجھ لیتا ہے۔یہ نور کے نیلے رنگ کو جذب کر لینے کے مترادف ہے۔یہ نیلے آسمان اورسمندر دونوں کی نمائندگی کرتا ہے۔یہ ذہن کو محفوظ،امن، سکون، اطمینان،سنجیدہ اور منظم رہنے کا احساس دیتا ہے۔یہ اعتماد دیتا ہے۔ وسعت خیال، وفاداری، استحکام،اخلاص، دانشمندی،ذہانت اور تفکر  اس سے وابستہ ہے۔یہ رنگ مغموم اورتنہائی کو زیادہ پسندکرنے کا احساس پیدا کر سکتا ہے۔دوسروں کے لئے مغموم ہونا محبت کی اوج ہے۔اور تفکر کے لئے تنہائی ،اور   ہجوم سے اجتناب کرنا اولین ضرورت ہے(حوالہ سورۃ سبا۔46)۔اور تفکر کرنے والوں کو  بھوک کم لگتی ہے۔اس  رنگ کے پھل شاید دو تین ہی ہیں۔یہ سب سے کم  اشتہا انگیز ہے۔

7۔بلاغت کے عناصر کا تعین کرنا۔یہ معنی اور مفہوم کی ساتویں اور آخری تہہ  layer ہے جو پہلی چھ کے ساتھ اجتماع کر کے مصنف کے نکتہ نظر /مافی الضمیر/منشا کے قریب قریب لے جاتی ہے۔اس منزل کو بخوبی  پار کر لینا ایسے ہے جیسے ساتویں  رنگ بنفشی(Violet)کو جذب کرنے میں کامیاب ہو گئے۔یہ خود اعتمادی دے کربلند نظرآرزو دے گا۔یہ بنیادی طور پر شرافت، بے لوثی،اسرار کوجاننے سے وابستہ ہے۔ رنگوں کی نفسیات کے حوالے سے  یہ ذہن اور جذبات میں ہم آہنگی اور توازن کو فروغ دیتا اور یوں ذہنی توازن،استحکام اور قلبی سکون کا باعث بنتا ہے۔یہ فکر اور سرگرمی اور مرئی اور غیر مرئی دنیا کے مابین ایک رابطے کا کردار ادا کرتا ہے۔

ایسا کر لیں تو "ٱلنُّورُ"ہمارے خلیوں اور ڈی این اے میں سرایت کرجائے گا۔یہ حقیقت ہے:

يَوْمَ تَرَى ٱلْمُؤْمِنِيـنَ وَٱلْمُؤْمِنَٟتِ

آپ(ﷺ)اس دن آپ پر اور قرءان مجید پر صدق قلب سے ایمان  لانےوالے مردوں اور عورتوں  کو دیکھیں گے۔

يَسْعَىٰ نُورُهُـم بَيْـنَ أَيْدِيـهِـمْ وَبِأَيْمَٟنِـهِـم

ان کا نور ان کے ہاتھوں کے  مابین سامنے اور ان کے دائیں جانب چل رہا ہو گا۔

بُشْـرَىٰكُـمُ ٱلْيَوْمَ جَنَّٟتٚ تَجْـرِى مِن تَحْتِـهَا ٱلۡأََنْـهَٟرُ خَٟلِدِينَ فِيـهَاۚ

ان سے کہا جائے گا’’آپ لوگوں کے لئے خوش خبری ہے آج کے دن ایسے باغات ملنے کی جن کے پائیں نہریں بہتی ہیں۔آپ ان میں ہمیشہ آباد رہیں گے۔

ذَٟلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيـمُ  ١٢

یہ ہے جو صحیح معنوں میں زندگی بھر کی کامیابی کا عظیم ایوارڈ ہے‘‘۔

يَوْمَ يَقُولُ ٱلْمُنَٟفِقُونَ وَٱلْمُنَٟفِقَٟتُ لِلَّذِينَ ءَامَنُوا۟

یہ ہے وہ دن جب منافق مرد اور منافق عورتیں ان لوگوں کی توجہ مانگتے ہوئے استدعا کریں گے جو صدق قلب سے ایمان لائے تھے۔

ٱنظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ

’’آپ لوگ ہمارا انتظار کریں۔آپ کے نور سے ہم کچھ روشنی کا دائرہ دیکھ کر آپ تک پہنچ سکیں‘‘۔

قِيلَ ٱرْجِعُوا۟ وَرَآءَكُمْ فَٱلْتَمِسُوا۟ نُورٙا

ان کو جواب دیا گیا’’تم لوگ اپنے پیچھے والے مقام پر واپس رجوع کرو۔پھر کوشش کر کے ’’روشنی‘‘کولمس  سے محسوس کر لو‘‘۔

فَضُرِبَ بَيْـنَـهُـم بِسُورٛ لَّهُۥ بَابُۢ

چونکہ ان مومنین کی آسمان کے پار روانگی کا وقت ہو جائے گا اس لئے ان کے مابین ایک دوسرے کو نظروں سے اوجھل کر دینے والی رکاوٹ کو نمایاں کر دیا گیا،فقط ایک دیوار؛ایک دروازہ باہر جانے کے لئے اس میں موجود ہے۔

بَاطِنُهُۥ فِيهِ ٱلرَّحْـمَةُ وَظَٟهِرُهُۥ مِن قِبَلِهِ ٱلْعَذَابُ  ١٣

اس(دروازے)کا پوشیدہ حصہ۔۔اللہ تعالیٰ کی رحمت اس میں ہر سو دکھائی دے گی۔۔اور اس(دروازے)کا سامنے کا دکھائی دینے والا حصہ۔۔عذاب اس کے روبرو ہر سو موجود ہو گا۔

يُنَادُونَـهُـمْ أَ لَمْ نَكُن مَّعَكُـمْۖ

رخصت ہوتے وقت وہ(منافقین) انہیں (مومنین کو)دور سے اونچی آواز میں پکاریں گے’’کیا ہم لوگ تمہارے ساتھ نہیں بستے تھے‘‘۔

قَالُوا۟ بَلَـىٰ وَلَـٰكِنَّكُـمْ فَتَنتُـمْ أَنفُسَكُـمْ وَتَرَبَّصْتُـمْ وَٱرْتَبْتُـمْ

انہوں نے جواب دیا’’یہ صحیح ہے۔لیکن حقیقت اپنی جگہ ہے کہ تم لوگوں نے خود اپنے نفوس کو ہیجان و اضطراب میں مبتلا کیا،اور تم نے اپنے آپ کو ازخود انتظار میں رکھا،اور دانستہ تم نے دوغلے پن کے تذبذب میں اپنے آپ کو مبتلا رکھا۔

وَغـرَّتْكُـمُ ٱلۡأَمَانِـىُّ

اور لغو،تمناؤں اور خواہشات کی تسکین کرنے والے کتاب اللہ سے ماوراء من گھڑت باتوں نے تمہیں دھوکے میں مبتلا رکھا۔

حَتَّىٰ جَآءَ أَمْـرُ ٱللَّهِ

تم لوگ اس روش پر اس وقت تک کاربند رہے   یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کاحکم پہنچ گیا۔

وَغَـرَّكُم بِٱللَّهِ ٱلْغَـرُورُ  ١٤

اور منفرد دھوکے باز نے تمہیں لذت دنیا کے حصول میں مبتلا کر کے اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنا بھلا دیا۔(الحدید۔١٤)

اجناس اور خوردونوش کا احسن عنصر اور عظیم قرءان کے احسن عنصر کو جزو حیات بنانا حیات کے تسلسل کا  ضامن ہے۔ "ٱلنُّورُ"(سفید روشنی)حیات کا ضامن ہے۔اور پودے اس"ٱلنُّورُ"کے ذریعے حیات کے تسلسل کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ پودوں کا حیات کے تسلسل میں مددگار بننے کے نظام کوآپ "photosynthesis"فوٹو سنتھیسس کہتے ہیں۔اس کے پہلے حصے کے معنی "لائٹ،روشنی"اور دوسرے کے "اکٹھے،باہم دگر رکھنا"ہیں۔اس طرح اس نظام /پراسیس کو ہم اردو میں"ٱلنُّورُکے ذریعے سامان زیست جمع کرنا"کہہ سکتے ہیں جس میں خوراک اور ایندھن شامل ہیں۔زمین پر زندگی کا زیادہ تر انحصار پودوں کے اس عمل پر ہے۔اس عمل کے ذریعے پودے سورج کی روشنی،پانی اور کاربن ڈائی اکسائڈ کو استعمال کر کے اکسیجن اور توانائی پیدا کرتے ہیں۔یہ روشنی کی توانائی (energy) کوکیمکل توانائی میں تبدیل کرنے کا طریقہ کار ہے۔عجب اتفاق ہے کہ اس طریقہ کار کے مراحل بھی سات ہیں۔ان کی پیدا کردہ آکسیجن زمین پر اس کی مقدار کو برقرار رکھتی ہے اور زمینی حیات کے لئے ضروری توانائی مہیا کرتے ہیں۔ "ٱلنُّورُ"کی اہمیت جان لیں کہ یہ حیات افروز عمل صرف اس وقت شروع ہوتا ہے جب روشنی سے حاصل ہونے والی توانائی پودے کے رد عمل کے مرکز(reaction centre)میں جذب ہوتی ہے جس میں سبزکلوروفل(chlorophyll)ہوتا ہے۔

وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٙ

اور ہ جناب ہی ہیں  جنہوں نے آسمان سے پانی کو (متعین مقدار ۱۸:۲۳)آسمان سے یکبارگی نازل فرمایا تھا۔

فَأَخْرَجْنَا بِهِۦ نَبَاتَ كُلِّ شَـىْءٛ

چونکہ پانی حیات کا لازمی جزو ہے(الانبیاء۔۳۰) اس لئے اس کے اتصال سے ہم جناب نے نباتات سےمتعلق تمام اشیاء کو زمین سے خروج دیا۔ 

فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرٙا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبّٙا مُّتَـرَاكِبٙا

  • Thereby, Our Majesty discharged from it (the sprouted plant) greenstuff (pigment - chlorophyll); its characteristic is that We produce-take out of it superposed seed/graineventual reproductive success of the plant.

پھر ابتدا میں ہم جناب نے اس (شئے/پودے)میں سے پہلے سے موجودسبز مواد(کلوروفل)کو ظہور دیا۔اس سبز موادوالے پودےکی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سے ہم جناب باہمی طور پر ایک دوسرے پر سوار دکھائی دینے والےدانے کوخروج دیتے رہتے ہیں۔(حوالہ الانعام۔٩٩)

انسان میں پودوں کے ردعمل کے مرکز(reaction centre)کے مماثل قلب ہے۔انسان کے قلب کے متعلق کہا کہ بعض لوگ ان کے ذریعے تعقل نہیں کرتے اور یہ کہ بصارتیں اندھی نہیں ہوتی بلکہ قلوب نگاہ بصیرت سے اندھے ہو جاتے ہیں (حوالہ الحج۔۴۶)۔قلوب کو انسان کے تعقل کرنے کے لئے عضو قرار دیا ہے۔جناب ابن فارس کے مطابق قلب (ماخذ:ق ل ب )میں سمویا بنیادی تصور شئے کے خالص ہونے اور اس کے ذی شرف کا ہے۔اور دوسرے معنی کسی شئے کو ایک جہت سے دوسری جہت میں پلٹا دینا۔اور بتایا کہ قلب کی تسمیہ کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ شئے کو خالص کرتا اور اسے ارفع کرتا ہے۔صحرا کی تپتی ریت پر جس انداز میں سانپ لوٹ پوٹ کرتا ہے وہ قلب کی غماز ہے۔

نیوروکارڈیالوجی(neurocardiology)۔قلب سے تعلق رکھنے والے عصبیاتی نظام کے نئے شعبے/موضوع پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دل ایک ایسا حسی عضو ہے جو معلومات حاصل کرنے اور اس پر کاروائی کرنے کا حساس ترین مرکز ہے۔قلب کے اندر موجود اعصابی نظام/دل کا دماغ معلومات اور علم کو سیکھنے، سمجھنے، یاد رکھنے اور پیشانی کے پیچھے موجود دماغ کے فیصلوں سے آزاد اپنے فیصلے کرنے کا مجاز بناتا ہے۔مزید برآں تحقیق نے ظاہر کیا ہے کہ دل مسلسل دماغ کو سگنل/پیغام بھیجتا ہے جواس کے مرکز کے آزاد فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے جو تصور،سمجھ، ادراک اور جذبات کے تجزیہ سے وہ کرتا ہے۔قلب سے دماغ کو پیغام ترسیل کرنے والے راستے(pathways)ان سے کہیں زیادہ ہیں جو دماغ سے دل کو پیغام پہنچاتے ہیں۔ دماغ خواہشات نہیں رکھتا اس لئے سچائی اور حقیقت کا علمبردار ہے۔لیکن انسان کے قلب کی خواہشات اسے مجبور محض بنا سکتی ہیں اگرچہ کراہت سے تعمیل کرے گا۔

قلب کو دماغ اور تمام جسد سےالصاق کرنے والے وسیع عصبی مواصلاتی نیٹ ورک کے علاوہ دل برقی مقناطیسی(electromagnetic)قوت کے ذریعے دماغ اور تمام جسم سے رابطے میں رہتے ہوئے معلومات بہم پہنچاتا ہے۔قلب جسم کا سب سےمتوازن، سرتال ہم آہنگ برقی مقناطیسی فیلڈ پیدا کرتا ہے۔دماغ کی پیدا کردہ برقی مقناطیسی فیلڈ کے مقابلے میں دل کی پیدا کردہ برقی فیلڈ طول و عرض(amplitude)ساٹھ گنا ہےاور ہر خلیہ میں جذب ہوتا ہے جبکہ مقناطیسی فیلڈ، ماہرین کے مطابق پانچ ہزار گنا زیادہ اور مضبوط ہے اور آج اسے حساس قسم کےمیگنیٹو میٹر(magnetometer)سے قلب سے کئی فٹ دور فاصلے پر معلوم کیا جا سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے ناشر ،رسول کریم ﷺ کو اپنے کلام پر مشتمل کتاب  بعنوان قرءان  عنایت فرما کر  اسے وضاحتی نام/ذاتی صفت(epithet)نور یعنی قوس قزح  کےسات رنگوں کے مجموعہ سفید روشنی(white light)دیا ہے۔انتہائی تعجب خیز بات یہ ہے کہ جسے  اکیسویں صدی  میں نیوروکارڈیالوجی(neurocardiology)میں تحقیق کا نیا شعبہ/موضوع  ہم سمجھتے ہیں وہ قرءان مجید میں چودہ سو سال سے بیان کیا ہوا ہے۔ارشاد فرمایا:

قُلْ مَن كَانَ عَدُوّٙا لِّجِبْـرِيلَ

آپ(ﷺ)اعلان فرمائیں’’جو کوئی عداوت پر مبنی شبہات کا اظہار کرتا ہے جبرائیل (علیہ السلام)کے لئے‘‘(وہ درحقیقت ایمان لانے سے انکاری ہے)۔

فَإِنَّهُۥ نَزَّلَهُۥ عَلَـىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ

کیونکہ یقیناً وہ ہی ہیں جنہوں نے اسے (قرء ان)وقفے وقفے سے آپ کے قلب پر اتارا /پہنچایاہے،اللہ تعالیٰ کی موقع محل کی مناسبت سے پیشگی اجازت کے ساتھ۔

مُصَدِّقٙا لِّمَا بَيْـنَ يَدَيْهِ

یہ نازل کردہ(قرء ان)تصدیق کرنے/حقیقت قرار دینے والا ہے اس کو جو اِس سے قبل زمان و مکان میں (کتاب خاص ۔ام الکتاب میں سے)نازل کیا گیا تھا۔

وَهُدٙى وَبُشْـرَىٰ لِلْمُؤْمِنِيـنَ ٩٧

اوریہ بتدریج نازل کردہ(قرء ان)ایمان والوں کے لئے رہنما اوراچھے انجام کی خوشخبری،ضمانت دیتا ہے۔(البقرۃ۔٩٧)

کیا یہ تعجب خیز نہیں کہ قرءان مجید کے تنزیل و ابلاغ کا مقام قلب بیان فرمایا جس کے متعلق اکثریت کا خیال محض اتنا ہے کہ انسانی جسد میں  عضلاتی پمپ ہے جو چار چیمبروں سے بنا ہے،اوپر کے دو چیمبر(atria)اور نیچے دو چیمبر(ventricles)۔یہ قدرتی برقی نظام کی کرنٹ سے عضلات /پٹھوں کی حرکت سے سکڑتے اور پھیلتے ہیں اور اس دھڑکن سے دل خون کو پھیپھڑوں اور جسم کے تمام اعضاء کو پمپ کرتا رہتا ہے۔مگر اب ایک سادہ پمپ سے کہیں زیادہ انتہائی پیچیدہ نظام کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔اب سائندان تسلیم کرتے ہیں کہ قلب کا اپنافعال دماغ اور شعورہے ان "تین دماغوں(ٱلۡأَفْـِٔدَةَ)"سے منفرد جو انسان کے ارفع دھڑ اور کھوپڑی میں موجود ہیں۔قرءان مجید نے چودہ سو سال قبل قلب کو تعقل کرنے والاعضو قرار دیتے ہوئے شعور و بصیرت کی آماج گاہ بتایا تھا۔
آج ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ برقی مقناطیسی لہریں مرتی نہیں،معدوم نہیں ہوتیں اور حرکت کرتے ہوئے توانائی نہیں کھوتی۔ آقائے نامدار،رسول کریم محمَّد ﷺ کے قلب مبارک سے پھوٹنے والی نور کی بارد کرنیں ہم تک پہنچ رہی ہیں کیونکہ قرءان مجید من و عن ہمارے ہاتھوں اور بصارتوں کے روبرو ہے۔یہ ہم پر ہے کہ اپنے قلب کو منیب بنا کر انہیں اپنے سینے میں اتار کر دھڑکنوں میں بسا لیں، اور فلاح کے حق دار بنا لیں اپنے آپ کو۔آقائے نامدار،رسول کریم کی خدمت اقدس میں جھکی نگاہوں سے ہر لمحہ ہمارا سلام پہنچے، یا رب العالمین۔

مَّنْ خَشِىَ ٱلرَّحْـمَـٰنَ بِٱلْغَيْبِ

جس نے الرّحمن (ذوالجلال والاکرام)کے رعب،دبدبہ،احترام اور اپنے ساتھ موجودگی کا احساس رکھا،اپنی بصارتوں سے اوجھل ہونے کے باوجود،

وَجَآءَ بِقَلْبٛ مُّنِيبٛ  ٣٣

اور وہ وقف کئے ہوئے قلب کے ساتھ آیا—(سورۃ قؔ۔ ۳۳)

آخرت کے لئے"سامان زیست"ہم نے اکٹھا کرنا ہے؛ جنت خریدنے اور اس میں عیاشیوں کے لئے اپنا بنک اکاؤنٹ بنا کر  مستقبل کے لئے سیونگ آج کرنا ہے اور اس کو چیک کرتے رہنا ہے:

يَـٰٓأَيُّـهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟

!اے وہ لوگوں جنہوں نے رسول کریم (محمّد ﷺ)اور قرءان مجید پرایمان لانے کا اقرارو اعلان کیا ہے توجہ سے سنو

ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ

تم لوگ تندہی سے محتاط رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے پناہ کے خواستگار رہو۔

وَلْتَنظُرْ نَفْسٚ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٛۖ

اور ہر نفس/شخصیت اس کو دیکھے جسے اس نے اپنے کل کے لئے کمایا ہے۔

وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَۚ

اورتم لوگ تندہی سے محتاط رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے پناہ کے خواستگار رہو۔

إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيـرُۢ  بِمَا تَعْمَلُونَ .١٨

متنبہ رہو؛ اللہ تعالیٰ ہر لمحہ ان اعمال سے بخوبی باخبر ہیں جو تم کرتے ہو۔(الحشر۔١٨)

آج اگر"ٱلنُّورُ"کو جذب کر کے    پودوں کے"photosynthesis"فوٹو سنتھیسس  کی مانند   (synthesis)ترجمہ کر کے  معنی و مفہوم کو نہیں سمجھا اور فقط اس  کے بیان کے مطابق اپنی زندگی کو استوار کر کے سامان زیست نہیں بنایا تو دنیا اور آخرت کی حیات کو ہم باہم دگر  نہیں کر سکیں گے   یعنی اسے"ٱلْحَيَوَانُ"اصل حیات نہیں بنا سکیں گے (العنکبوت۔٦٤) ؛اورنہ جی سکیں گے اور نہ نیست ہونے کی خواہش پر مر سکیں گے اور ہر لمحہ احساس حیف میں  جینا پڑے گا:

يَقُولُ يٟلَيْتَنِى قَدَّمْتُ لِحَيَاتِـى   ٢٤

 اور وہ خود کلامی کرتے ہوئے کہے گا"اے میرے احساس حیف!اے کاش!میں نے اپنی حیات کے لئے پہلے سے کچھ انتظام کیا ہوتا"۔(الفجر۔ 24)